“اسلامک گولڈن ایج” کا خاتمہ عام طور پر تیرہویں صدی کے وسط میں سمجھا جاتا ہے لیکن ہم بہت مختصرا تین اہم شخصیات کی بات کرتے ہیں، جو اس عہد کے ...
“اسلامک گولڈن ایج” کا خاتمہ عام طور پر تیرہویں صدی کے وسط میں سمجھا جاتا ہے لیکن ہم بہت مختصرا تین اہم شخصیات کی بات کرتے ہیں، جو اس عہد کے بعد کی ہیں۔اس میں ایک طبیب، ایک مورخ اور سوشل سائنٹسٹ اور ایک ریاضی دان تھے۔ (یہ اس تاثر کو بھی غلط ثابت کرتا ہے کہ اس عہد کی سائنس زیادہ تر فلکیات تک محدود رہی تھی)۔
جنرل نالج کے کوئز کا ایک مقبول سوال ہے کہ “پہلا سائنسدان کون تھا جس نے دورانِ خون دریافت کیا تھا؟” اس کا روایتی “درست” جواب ولیم ہاروے ہے جنہوں نے یہ 1616 میں کیا تھا۔ یہ جواب غلط نہیں لیکن سائنس میں ہمیشہ کی طرح یہ اتنا سیدھا نہیں ہے۔ برلن کی لائبریری سے معلوم ہوا کہ شام سے تعلق رکھنے والے طبیب ابنِ نفیس pulmonary transit کی بڑی حد تک درست وضاحت اپنی تحریر “شرح تشریح القانون” میں کر چکے تھے۔ وسالیس، سرویٹس اور رینالڈس کولمبو ابنِ نفیس کے کام سے واقف تھے۔ اور ہاروے نے ان سے سیکھا تھا۔ ابنِ نفیس کا کام دورانِ خون کی وضاحت نہیں تھی لیکن اس نظام کا حصہ تھا۔ ہاروے نے مکمل سرکولیشن سسٹم کی وضاحت کی۔
اسی طرح ہاروے کو بھی اس میں پھیپھڑوں کی فزیولوجی کا علم نہیں تھا اور یہ کام لاویوسے نے اٹھارہویں صدی میں کیا۔ یہ سب سائنس کی رفتہ اور ایک دوسرے کے کام کے اوپر ہونے والی تاریخ کو دکھاتا ہے۔
ابنِ نفیس کا کام بہت سے شعبوں میں ہے اور ان کا شمار تاریخ کے بہترین anatomists میں کیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور جینئس جو ابن الہیثم، ابنِ سینا اور البیرونی کے پائے کے تھے، وہ تیونس سے تعلق رکھنے والے ابنِ خلدون تھے۔ ان کا کام نیچرل سائنس میں نہیں تھا بلکہ تاریخ اور سوشل سائنس میں تھا لیکن وہ البیرونی سے کم نہ تھے۔
معاشیات کے مورخ جوزف شومپٹر کا کہنا ہے کہ بلاشبہ ابنِ خلدون اکنامک سائنس کے بانی تھے۔ اور ان کا کام ایڈم سمتھ کے کام سے بھی زیادہ وسیع ہے۔ انہوں نے محنت کی تقسیم کا تصور ایڈم سمتھ سے پہلے، محنت کی قدر کا تصور ڈیوڈ ریکارڈو سے پہلے، آبادی کی تھیوری کو تھامس مالتھس سے پہلے اور ریاست کے معیشت سے تعلق کو جان کینز سے پہلے دیا تھا۔ اور ان تصورات کی بنا پر انہوں نے اکنامک تھیوری کا ڈائنامک سسٹم بنایا تھا۔
اس کے علاوہ وہ سوشولیوجی کے شعبے کے بھی بانی ہیں۔ ان کا مشہور ترین کام “مقدمہ” ہے۔ یہ انسانی تہذیب پر لکھی کتاب ہے جس میں ابنِ خلدون بڑی تفصیل سے ریاست اور معاشرے پر بحث کرتے ہیں۔ مورخ آرنلڈ ٹونبی کا کہنا ہے کہ “یہ کسی بھی وقت اور جگہ میں کیا جانے والا بہترین کام ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور شخصیت جمشید الکاشی تھے جو پندرہویں صدی کے بہترین ریاضی دان تھے۔ وہ ثمرقند میں الخ بیگ کی سرپرستی میں کام کرتے تھے۔ الخ بیگ تیمور لنگ کے پوتے تھے جنہوں نے تیموری خاندان کی بنیاد رکھی۔ اس خاندان نے وسطی ایشیا میں حکومت کی اور پھر انڈیا میں مغل سلطنت کی بنیاد ڈالی جو انیسویں صدی تک رہی۔
الخ بیگ خود اچھے ریاضی دان اور آسٹرونومر تھے۔ اور کئی اچھے ذہنوں کو ثمرقند لانے میں کامیابی رہے تھے۔ 1437 میں انہوں نے زیجِ سلطانی ترتیب دی۔ یہ فلکیات کا ٹیبل تھا جس میں ایک ہزار ستاروں کا کیٹالاگ تھا۔ یہ ٹائیکو براہے سے پہلے مرتب کردہ سب سے مفصل کیٹالاگ تھا۔
الکاشی کا decimal fractions پر کیا جانے والا بہترین کام ہے۔ انہوں نے pi کی قدر سولہ decimal places تک درست معلوم کی۔
لیکن انکی ریاضی میں اہم کام ٹرگنومیٹری کا cosine rule معلوم کرنا ہے۔ فرانسیسی میں ابھی بھی اس کو theorem d’al-Kashi کہا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ چند مثالیں یہ دکھانے کرنے کیلئے ہیں کہ آج پیش کئے جانے والے کچھ مقبول خیالات کے برعکس ایسا نہیں کہ اچانک کسی ایک واقعے یا کسی ایک شخصیت کی وجہ سے اسلامی دنیا میں تیرہویں صدی کے وسط میں علم کی شمع بجھا دی گئی تھی۔ عظیم شخصیات اور ان کے کام اس وقت کے بعد بھی جاری رہے۔ اور ایسا صرف کسی ایک آدھ شعبے تک محدود نہیں رہا۔
(جاری ہے)
ساتھ لگی تصویر بخارا میں الخ بیگ کے مدرسے کا ماڈل ہے۔