Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

گولڈن ایج (23) ۔ آسٹرونومی

“گلیلیو نے 1609 میں اپنی نئی ٹیلی سکوپ کا رخ آسمان کی طرف کیا اور آفاق کے راز پا لئے۔ اس نے صدیوں کی کنفیوژن کو دور کر دی۔ کاپرنیکس درست ت...


“گلیلیو نے 1609 میں اپنی نئی ٹیلی سکوپ کا رخ آسمان کی طرف کیا اور آفاق کے راز پا لئے۔ اس نے صدیوں کی کنفیوژن کو دور کر دی۔ کاپرنیکس درست تھے”۔
سائنس کی تاریخ میں اس طرح حد سے زیادہ سادہ کہانیاں بنانے کی ضرورت سائنس پڑھانے کے لئے پڑتی ہے۔ سائنسی ترقی خاصا پیچیدہ، گڑبڑ سے بھرا ہوا اور سست رفتار عمل ہے۔ صرف پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو اس سب میں سے کہانی نکالی جا سکتی ہے اور ہیرو بنائے جا سکتے ہیں۔ تاریخ میں جاری صدیوں سے ہونے والے چھوٹے اور بکھرے ہوئے اقدام سے ہونے والی ترقی کا یکمشت خزاں کے پتوں کی طرح ڈھیر بنایا جا سکتا ہے جس پر بڑی شخصیات کو بٹھا کر بتایا جا سکتا ہے کہ ان کی وجہ سے فلاں شعبہ ایک ہی چھلانگ لگا کر آگے بڑھ گیا۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ ارسطو، نیوٹن، ڈارون یا آئن سٹائن جینئیس نہیں تھے۔ صرف یہ کہ سادہ کہانیاں بہت سے دوسروں کو چھوڑ دیتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسٹرونومی میں ایسا کیا جانا عام ہے۔ “بطلیموس سے تیرہ سو سال بعد کاپرنیکس نے اپنی کتاب لکھی جو انسانی تاریخ میں سوچ کی ڈرامائی تبدیلی تھی۔ انسان کی کائنات میں مرکزی حیثیت ختم ہو گئی۔ کاپرنیکس نے دکھا دیا کہ زمین کائنات کا مرکز نہیں بلکہ یہ سورج کے گرد گھومتی ہے”۔
نہیں، نہ ہی فلکیات اتنی آسان رہی ہے اور نہ ہی اس کی تاریخ اتنی سادہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسٹرونومی اسلامی تاریخ میں اہم کیوں رہی ہے؟ یہاں پر دو وجوہات ہیں۔ ایک تو واضح ہے۔ اس سے وہ چارٹ، ٹیبل اور تکنیک نکالی جاتی ہے جس سے نمازوں کے اوقات، رمضان کا آغاز و اختتام یا پھر  قبلے کی سمت کا تعین جیسے مسائل حل کرنا ہے۔
جبکہ دوسرا پہلو فلسفانہ ہے۔
کیا ستارے قسمت کا حال بتاتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ آج تو ہم اس سوال پر ہنس دیں گے۔ لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا بھر میں بہت عرصے تک ایسا سمجھا جاتا رہا۔ ہندوستان کی جنتریاں، چینی ووزنگ، بابل کے برج، یہ خیالات دنیا میں ہر جگہ اور کلچر میں رہا ہے۔ یہاں تک کہ جدید فلکیات کے بانی، گلیلیو، مستقبل کے زائچے بنا کر پیشگوئیاں بھی کرتے تھے۔ اور ایک پیشگوئی کے لئے بارہ سکوڈی معاوضہ لیتے تھے۔ (یہ ان کی، بطور استاد، دو ماہ کی تنخواہ کے برابر تھا)۔ سوال یہ کہ ایسا کیوں تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ہم آسٹرولوجی کا مذاق آسانی سے اڑا سکتے ہیں، لیکن یہ یاد رکھئے کہ اس کی وجہ ہمارا فطری قوانین کے بارے میں حاصل کردہ علم ہے۔ اُس دور میں جب اِن قوانین کا زیادہ علم نہیں تھا، یہ خیال کہ فلکیاتی جسم کسی طرح ہماری زندگی کو متاثر کر سکتے ہیں، غیرمعقول نہیں تھا۔ آخر یہ تو ہمیں بہت عرصے سے معلوم تھا کہ کسی پرسرار طریقے سے (اس وقت گریویٹی کا علم نہ تھا) سورج اور چاند سمندری لہروں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ستاروں کی حرکات کے باریک بین مشاہدے کا ایک محرک یہ رہا تھا کہ فلکیات میں اجسام کی حرکات اور زمین پر ہونے والے واقعات کا تعلق نکالا جائے۔ تاریخ میں بہت عرصہ نجوم کا علم اس مقصد کیلئے رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلامی تھیولوجی میں یہ اصرار رہا کہ آسٹرونومی ایک سائنس ہے جبکہ آسٹرولوجی صرف توہم ہے۔ اس کے مطابق مستقبل کا علم صرف اللہ کو ہے۔ ستارے مخلوق ہیں، یہ علم نہیں رکھتے۔ آسٹرونومی میٹافزیکل لحاظ سے “غیرجانبدار” رہی۔ اور اس وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ جن جگہوں پر آسٹرولوجی جاری بھی رہی، وہاں پر اسے سائنس نہیں سمجھا گیا اور معتبر نہیں ٹھہرائی گئی۔
ان دو عوامل نے فلکیات کے علم کو exact science کے طور پر دیکھنے میں مدد کی۔
(جاری ہے)