طارق بن زیاد کی ہسپانیہ میں آمد یہاں کی تاریخ کا اہم موڑ تھا۔ اس علاقے میں سائنسی روایات نہیں رہی تھیں۔ جب عرب یہاں پر آٹھویں صدی میں پہنچ...
طارق بن زیاد کی ہسپانیہ میں آمد یہاں کی تاریخ کا اہم موڑ تھا۔ اس علاقے میں سائنسی روایات نہیں رہی تھیں۔ جب عرب یہاں پر آٹھویں صدی میں پہنچے تو یہ عباسیوں کے بغداد سے مختلف جگہ تھی۔ بغداد فارس کی علمی روایات سے بھی فائدہ اٹھا سکتا تھا اور نسطوری کرسچن یونانی فلسفے اور طب سے بھی واقف تھے جو بازنطینی حکمرانی میں یہاں پہنچا تھا۔ جبکہ اندلس میں ایسا کچھ بھی نیہں تھا۔
نہ ہی اندلس میں ترجمے کی تحریک تھی۔ یہاں پر سائنسی روایات نے رفتہ رفتہ جڑ پکڑی۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ یہاں پہنچی اور پھیلی پھلی۔
اندلس کی سائنس میں طب اور فلسفہ زیادہ رہے جبکہ بغداد میں ریاضی اور آسٹرونوی تھے۔ اور یہاں پر جالینوس کے طب کو پڑھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ انہیں مشرق کی کتابوں تک رسائی تھی۔
اندلس کے ایک مشہور سائنسدان عباس ابنِ فرناس ہیں۔ ایک عظیم موجد جنہیں اندلس کا ڈاونچی کہا جاتا ہے۔ وہ فضا میں اڑنے والے پہلے شخص تھے۔ ان کے نام پر کئی ائیرپورٹ کے نام رکھے گئے ہیں، چاند کی ایک گھاٹی کا نام ان کے نام پر ہے اور عرب ممالک کے کئی ڈاک کے ٹکٹوں پر ان کی تصویر رہی ہے۔ ایک رنگا رنگ کردار تھے جو عبدالرحمان دوئم کے دور میں قرطبہ آئے۔
ان کی شہرت ان کے نہ ختم ہونے والے تجسس اور پاگل پن کو چھوتی ہوئی بہادری کی وجہ سے ہے۔ جب انہوں نے اڑنے کی اپنی مشہور کوشش کی تو وہ 65 سال کے تھے۔ یہ قربطبہ کے شمال میں رصافہ کے پہاڑ سے کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی پرواز کئی منٹ تک رہی جس کے بعد گر کر ان کی کمر زخمی ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندلس کے اطبا میں مشہور ابو قاسم الزاہروی تھے۔ شاہی طبیب کی حیثیت سے انہوں نے الحکم کے ساتھ کام کیا۔ اور ان کی ایجادات کی فہرست طویل ہے۔ انہوں نے ایک سو سے زیادہ آلات ایجاد کئے۔ ان میں سے کئی آج بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر بچے کی پیدائش کے وقت استعمال ہونے والے forceps ان کی ایجاد ہیں۔ بھیڑ کی آنت سے بنائے گئے ٹانک، سرجیکل ہک، راڈ، سپون، speculum اور ہڈی کو کاٹنے والی آری۔ سرنج اور lithotomy scalpal۔ انہوں نے افیون اور چرس کو سفنج میں بھگو کر آپریشن کے لئے مریض کو سنگھا کر مدہوش کرنے کا طریقہ نکالا۔ سانس کی بند نالی کو کھولنے کے لئے شگاف کی تکنیک بنائی اور دندان سازی میں حصہ ڈالا۔
ان کے کام کا یورپ کے احیائے نو پر بڑا اثر تھا۔ اور ان کی طب میں خدمات الرازی اور ابنِ سینا جیسی شخصیات کے پائے کی تھیں۔ ان کی مشہور تصنیف اکتیس جلدوں پر مشتمل کتاب التصریف ہے جو سن 1000 میں لکھی گئی۔
اس کا لاطینی میں ترجمہ ہوا اور پندرہویں اور سولہویں صدی میں پرنٹنگ پریس نے اسے چھاپنا شروع کر دیا۔
ایک اور مشہور طبیب ابنِ ظہر تھے جن کا شعبہ میڈیسن تھا اور ان کا یورپ کے طب پر بہت اثر رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندلس میں گیارہویں صدی میں الزرقلی نے saphea ایجاد کیا (جو عرب لفظ صفیحہ سے لیا گیا ہے)۔ اور الزرقلی نے آسٹرونومی کی اہم پیمائشیں کیں۔ انہوں نے دریافت کیا کہ عطارد کا مدار گول نہیں بلکہ بیضوی ہے۔ کوپرنیکس کی کتاب میں جن دو اسلامک آسٹرونومرز کا حوالہ ہے اس میں ایک الزرقلی ہیں اور دوسرے البطانی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور اندلسی سکالر ابنِ باجہ تھے۔ انہوں نے تجویز کیا تھا کہ ملکی وے دراصل بہت سے انفرادی ستاروں کا مجموعی ہے اور اس کا دودھیا پن صرف زمین کی فضا سے ہونے والے انعطاف کا نتیجہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندلس کے سب سے مشہور فلسفی ابنِ رشد ہیں جو فلسفے میں تاریخ کے اہم ترین شخصیات میں سے ہیں۔ اندلس میں فلسفے کا کام الکندی، الفارابی اور الرازی سے پہنچا تھا اور انہی کی طرح ابنِ رشد نے بھی ارسطو کے فلسفے اور اسلامی تھیولوجی کو آگے بڑھایا۔
ایک اوسط تعلیم یافتہ یورپی کو اگر قرونِ وسطٰی کی علمی شخصیات کی فہرست دکھائی جائے تو شاید دو ہی لوگ پہنچان پائے۔ ایک ابنِ سینا (Avicenna) اور دوسرے (Averros)۔ فلسفے میں ان کے مکتبہ فکر (Averroism) کا یورپی تھیولوجی پر دیرپا اثر رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندلس کے سنہرے دور کی ایک خاص بات بغداد کی ہی طرح کی رواداری کی روایت تھی۔ اندلس میں بڑی اور خوشحال یہودی کمیونیٹی تھی۔ یہ اس وقت ختم ہوا جب اندلسی خلافت انحطاط پذیر ہوئے۔ یہاں کے یہودی فلسفیوں میں ایک سکالر موسیٰ ابنِ میمون تھے۔ موسیٰ اندلس کے فلسفیوں ابنِ باجہ اور ابنِ رشد سے بہت متاثر تھے اور انہوں نے ابنِ فارابی اور ابنِ سینا کو بھی پڑھا تھا۔ بڑے سوالات جیسا کہ خیروشر کے معنی، فری ول، حیات بعد الموت کی نیچر جیسے موضوعات پر یہودی تھیولوجی پر ان کا بہت اثر ہے اور اس کی وجہ قرطبہ کا یہ دور تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
اندلس وہ جگہ تھی جہاں سے عرب سائنس یورپ میں داخل ہوئی۔ اس رابطے کے دوسرے ذرائع بھی رہے۔ جیسا کہ سسلی یا وینس جیسے تجارتی روابط۔ لیکن بنیادی طور پر یورپ میں عرب کتابوں کے لاطینی تراجم کا مرکز اندلس ہی تھا۔
فرانسیسی عالم جربرٹ ڈی آریلاک عرب کلچر اور سائنس کی محبت میں گرفتار ہوئے تھے۔ ان کی دلچسپی خاص طور پر ہندو عربی اعداد، ریاضی اور فلکیات میں تھی۔ انہوں نے قرطبہ کا سفر کیا۔ اور اندلس کی ترقی سے ان کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ عربی سائنس کو یورپ میں متعارف کروانے میں ان کا بڑا کردار ہے۔ اور جو چیز اس کہانی کو سب سے زیادہ دلچسپ بناتی ہے، وہ یہ کہ یہ بعد میں پوپ بنے اور سلوسٹر دوئم کا لقب اپنایا۔ یورپ میں اسلامی سلطنت سے سائنس کو پہلی بار باقاعدہ طور پر متعارف کروانے والے کیتھولک پوپ تھے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اندلس کی چند شخصیات کا بڑا مختصر تعارف تھا۔ اور اس میں مہم جو ابنِ جبیر، مورخ ابن الخطیب اور جغرافیہ دان الادریسی تک کا ذکر شامل نہیں۔
اور اب ہم یہاں سے نکل کر جغرافیے کی ایک اور جگہ کا رخ کرتے ہیں۔
(جاری ہے)