جدید مورخین قرونِ وسطٰی کے فلسفے کے کام کو دو ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک ابنِ سینا سے پہلے کا دور، جس میں الکندی، الرازی، الفارابی شامل...
جدید مورخین قرونِ وسطٰی کے فلسفے کے کام کو دو ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک ابنِ سینا سے پہلے کا دور، جس میں الکندی، الرازی، الفارابی شامل تھے۔ انہوں نے ارسطو کے کام کو آگے بڑھایا، تبدیل کیا اور اس پر تنقید کی۔
دوسرا ابنِ سینا کے بعد کا دور جس میں ابنِ رشد اور غزالی جیسے نام تھے۔ جنہوں نے ابنِ سینا کے فلسفے کو آگے بڑھایا، تبدیل کیا اور اس پر تنقید کی۔
جس طرح ارشمیدس اور نیوٹن کے بیچ کے دو ہزار سال میں سائنس کا سب سے بڑا نام ابن الہیثم کو کہا جا سکتا ہے، ویسے ارسطو اور ڈیکارٹ کے درمیان فلسفے کی سب سے قدآور شخصیت ابنِ سینا تھے۔ ان کا کام کا آنے والے مسیحی اور یہودی تھیولوجی کے مفکرین پر بھی بہت اثر تھا۔ اس میں بارہویں صدی کے ہسپانوی فلسفی موسیٰ (Maimonides) کے علاوہ تیرہویں صدی کے راجر بیکن اور تھامس اکیوناس تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابنِ سینا کے سخت ناقد غزالی تھے۔ ان کی لکھی کتاب “تہافت الفلسفہ” (فلسفے کی بے ربطگی) فلسفیوں کے خلاف ہے جس میں مرکزی نشانہ ابنِ سینا تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ غزالی کا اعتراض کیا تھا۔
غزالی کی دلچسپی منطق میں تھی۔ اور وہ اپنی کتاب میں فلسفے، منطق، فلکیات یا ریاضی کے مسائل کو رد نہیں کرتے۔ ان کا اعتراض میٹافزکس پر تھا۔ اور کہنا تھا کہ “اگر کسی چیز کو ریاضی، جیومٹری یا مشاہدے سے دکھایا جا سکتا ہے تو اس میں شک کی گنجائش نہیں رہتی۔ مثال کے طور پر، چاند گرہن یا سورج گرہن کی وضاحت اور پیشگوئی رد نہیں کی جا سکتی۔ لیکن میٹافزکس میں خیالات کی اس طرح کڑی جانچ نہیں کی جاتی۔ اسے علم نہیں کہا جا سکتا”۔
اور اگر آپ کو آج بھی ایسا نظر آتا ہے کہ آج بھی کئی علمی شخصیات ایسی ہیں فلسفے کو زیادہ پسند نہیں کرتیں تو یہ روایت بھی نئی نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزالی کا یہ کام چار جلدوں پر ہے۔ اور اس کا جواب الجواب “تہافت ال تہافت” (بے ربطگی کی بے ربطگی) ابنِ رشد کا ہے جس میں ابنِ سینا کے کام کا دفاع کیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابنِ سینا آج کی اسلامی دنیا اور خاص طور پر ایران میں ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے نام پر بے شمار سکول اور ہسپتال ہیں۔ چاند کی ایک گھاٹی کا نام ان پر ہے۔ اور 1980 میں اقوامِ متحدہ نے ان کی ایک ہزار سالہ یومِ پیدائش پر خاص دن منایا تھا۔ انہیں فلسفے میں “اسلامی دنیا کا ارسطو” اور طب میں “اسلامی دنیا کا جالینوس” کہا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر نیچرل سائنس کی بات کی جائے تو اس میں البیرونی بہتر تھے۔ ان کا موقف تھا کہ محض سوچ اور منطق کے استعمال سے ارسطو کئی چیزوں میں غلط نتائج پر پہنچے تھے اور اس کا طریقہ تجربات اور مشاہدات ہونا چاہیے۔ اور اس طریقے سے انہوں نے فزکس اور آسٹرونومی میں اہم دریافتیں کیں۔ ان کی ریاضی کی مہارت بھی شاندار تھی۔
ان کی ریاضی کا ایک عملی استعمال “قبلے کے مسئلے” کے حل کیلئے نکلا تھا۔ جب بھی مسلمان دنیا میں نئی مسجد بنتی تھی تو اس کو سمت کے لئے قبلہ معلوم کرنا ہوتا تھا۔ یہ آسان کام نہیں تھا۔ کرہ زمین کی گولائی پر اس کی جیومیٹری پر البیرونی کے کام کا ثانی نہیں۔
انہوں نے 1031 میں جو ریاضی کی تکنیک اس کیلئے بنائی تھی، وہ پہلے موجود نہیں تھیں۔ پہلی بار ابتدائی کیلکولس استعمال کیا گیا تھا۔ اجرامِ فلکی کی حرکت اور اسراع کی مساوات تھیں۔
الرازی اور ابنِ سینا کے برعکس البیرونی ہمیں فکری طور پر قدامت پسند نظر آتے ہیں۔ کسی اچھے نیچرل سائنسدان کی طرح نظریاتی بحثوں سے دور رہتے تھے اور انہوں نے اس کی الرازی پر کی گئی تنقید ایسا کرنے پر ہے۔
(جاری ہے)