میڈیسن میں کچھ بھی سادہ نہیں۔ اور یہاں پر ایک اور مسئلہ ہے جو اس کے نتائج کو تجزیہ زیادہ مشکل کر دیتا ہے۔ یہ ضرورت سے زیادہ علاج کا مسئلہ ہے...
میڈیسن میں کچھ بھی سادہ نہیں۔ اور یہاں پر ایک اور مسئلہ ہے جو اس کے نتائج کو تجزیہ زیادہ مشکل کر دیتا ہے۔ یہ ضرورت سے زیادہ علاج کا مسئلہ ہے۔
میڈیسن کی تاریخ میں ڈاکٹروں کی توجہ بیمار لوگوں کو شفایاب کرنے پر رہی ہے۔۔ لیکن اب میڈیسن میں توانائی اس بات پر بھی صرف کی جاتی ہے کہ بیماری کو سر اٹھانے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے۔ اور اس نے میڈیکل کے شعبے کو بہت تبدیل کر دیا ہے۔
میڈیسن میں ایک پرانا مذاق ہے۔
سوال: ایک صحت مند شخص کون ہے؟
جواب: وہ جس کے ابھی تک طبی معائنہ نہیں کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدید ہیلتھ کئیر کے پیچھے یہ سوچ رہی ہے کہ ایک شخص کو زیادہ سے زیادہ غور سے دیکھا جائے۔ منطق کہتی ہے کہ کچھ بھی گڑبڑ نظر آئے تو اسے پہلے سے سنبھال لینا چاہیے تا کہ آگے چل کر خرابی نہ پیدا کرے۔ یہ غلط حکمتِ عملی نہیں لیکن اس نے ایک نئے مسئلے کو جنم دیا ہے۔ یہ غلط مثبت کا مسئلہ ہے۔
اس کے لئے ہم چھاتی کے سرطان کی مثال دیکھتے ہیں۔ یہ بڑی سنجیدہ بیماری ہے۔ اگر اسے ابتدا میں پکڑ لیا جائے تو علاج ہونے کے اچھے امکان ہیں۔ لیکن اگر یہ پھیل جائے تو پھر مشکل ہو جاتی ہے۔ کتنا ہی اچھا ہو کہ اگر اسے اپنے ظاہر ہونے سے پہلے ہی ابتدا میں پکڑ لیا جائے؟
اور ہمارے پاس ایسا ٹیسٹ موجود ہے۔ سکریننگ سے اس کی معلومات لی جا سکتی ہے! زبردست؟؟
بدقسمتی سے میڈیکل میں کچھ بھی سادہ نہیں۔ :(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سٹڈی سے پتا لگتا ہے کہ بیس سے تیس فیصد خواتین جن کا ٹیسٹ صاف آیا ہوتا ہے، دراصل ان میں ٹیومر پایا جاتا ہے۔
یہ تشویش ناک ہے لیکن دوسری طرف یہ ٹیسٹ ایسے ٹیومر بھی پکڑ لیتے ہیں جن کو نظرانداز کر دینا چاہیے تھا۔ ایسے کئی ٹیومر ہیں جو اس قدر سست رفتار ہوتے ہیں کہ انہیں اگر کچھ بھی نہ کہا جائے کہ یہ باقی عمر خطرہ نہ بنتے۔ برطانیہ میں کی جانے والی تحقیق بتاتی ہے کہ ایسے تیس فیصد کیس ہیں جن میں سکریننگ سے پکڑے جانے کے نتیجے میں ہونے والا علاج غیرضروری تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درحقیقت میموگرام پڑھنا اتنا آسان نہیں۔ کئی میڈیکل پروفیشنلز بھی کئی بار اس کے چیلنج کا ٹھیک اندازہ نہیں لگا پاتے۔ جیسا کہ ٹموتھی جورگینسن کے تجربات بتاتے ہیں کہ دو ماہرین کے اندازوں میں بھی بہت فرق نکل سکتا ہے۔
اس کا ایک بدقسمت نتیجہ یہ ہے کہ چھاتی کے کینسر کی سکریننگ اتنی زیادہ زندگیاں نہیں بچاتی جتنا خیال کیا جاتا ہے۔ سب کچھ ملا کر جو نتیجہ نکلتا ہے، وہ یہ کہ اگر سکریننگ نہ کی جائے تو چھاتی کے کینسر سے ہونے والی اموات کی تعداد ایک ہزار میں سے پانچ ہو گی۔ اور سکریننگ کروانے والوں میں ایک ہزار میں سے چار۔ بیس فیصد کی یہ کمی یقیناً مفید ہے۔ لیکن اتنا نہیں جتنا عام خیال ہے۔
مرد حضرات میں ایسا پروسٹیٹ کی سکریننگ کے ساتھ ہے۔ یہ پھیپھڑوں کے کینسر کے بعد مردوں میں سب سے زیادہ کینسر ہے اور بہت عام ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس کا ٹیسٹ (PSA test) بہت قابلِ اعتبار نہیں۔ یہ اس کے امکان کا بتاتا ہے۔ جبکہ اس کی تصدیق بائیوپسی سے ہوتی ہے۔ یہ تکلیف دہ پروسیجر ہے اور اس سے نکلنے والے نتیجے کا تعلق اس سے ہے کہ جو سیمپل نکلا، اس میں ٹیومر والا حصہ آیا یا نہیں۔ اور یہ صرف قسمت ہی ہے۔ دوسرا یہ کہ موجودہ ٹیکنالوجی سے یہ پتا نہیں لگتا کہ کینسر کتنا جارحانہ ہے۔ اس غیریقینی معلومات کی بنیاد پر فیصلہ لینا ہوتا ہے کہ سرجری کی جائے یا ریڈی ایشن دی جائے۔ یہ آسان فیصلے نہیں اور بائیوپسی خود بھی خطرے سے خالی نہیں۔
پروفیسر رچرڈ ایبلن نے 1970 میں پروسٹیٹ سپیسفک اینٹی جن دریافت کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ “امریکہ میں پروسٹیٹ ٹیسٹ پر ہونے والا سالانہ خرچ تین ارب ڈالر ہے اور میری نظر میں یہ بے فائدہ ہے۔ جب میں نے دہائیوں پہلے اپنی دریافت کی تھی تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس قدر وقت گزر جانے کے بعد ہم یہاں کھڑے ہوں گے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھ ٹرائلز کا میٹاڈیٹا یہ دکھاتا ہے کہ ایسا نہیں کہ یہ ٹیسٹ بالکل بے فائدہ ہیں۔ اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ پی ایس اے ٹیسٹ یا سکریننگ ٹیسٹ بے کار ہیں۔ ہمارے پاس دستیاب بہترین ٹول اس وقت یہی ہیں۔ اور خاص طور پر ہائی رسک مریضوں میں یہ زندگیاں بچاتے ہیں۔ لیکن ان کو کروانے والوں کو اس سب کے بارے میں مزید آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔
(جاری ہے)