کینسر وہ بیماری ہے جس کا خوف شاید سب سے بڑا ہے۔ یہ بیماری پرانی ہے لیکن اس کا خوف نیا ہے۔ 1896 میں نفسیات کے ایک جریدے نے جب موت کے خوف پر س...
کینسر وہ بیماری ہے جس کا خوف شاید سب سے بڑا ہے۔ یہ بیماری پرانی ہے لیکن اس کا خوف نیا ہے۔ 1896 میں نفسیات کے ایک جریدے نے جب موت کے خوف پر سروے کیا تو اس میں خناق، چیچک اور تپدق سرِفہرست تھے۔ زلزلہ، جانور کے کاٹنے سے مرنا، ڈوبنا بھی کینسر سے زیادہ خوفناک تھے۔
اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اوسط عمر کم تھی اور بہت سے لوگ اتنی عمر تک ہی نہیں پہنچتے تھے کہ کینسر ان کے لئے بڑا خطرہ ہو۔
یہ بیسویں صدی میں تبدیل ہوا۔ 1900 میں کینسر اموات کی آٹھویں بڑی وجہ تھی۔ جبکہ 1940 میں یہ دوسرے نمبر پر آ چکی تھی۔ آج چالیس فیصد لوگ اپنی زندگی کے کسی مقام پر یہ دریافت کریں گے کہ انہیں کینسر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی بار کینسر کو ایسے سمجھا جاتا ہے کہ یہ کوئی شے ہے جو انفیکشن کی طرح ہے جو کہ ہم پکڑ لیتے ہیں۔ لیکن کینسر مکمل طور پر اندرونی ہے۔ یہ جسم کا خود اپنے خلاف ہو جانا ہے۔ سن 2000 میں جریدے “سیل” نے چھ خصائص لکھے جو کینسر کے خلیوں میں ہوتے ہیں۔
۱۔ یہ بغیر کسی حد کے بڑھتے ہیں
۲۔ یہ بیرونی ہدایات اور ایجنٹ، جیسا کہ ہارمونز، کے اثر کے بغیر بے سمت بڑھتے ہیں۔
۳۔ یہ انجیوجینسس کرتے ہیں۔ یعنی جسم کو دھوکا دے کر خون کی سپلائی اپنی طرف کر لیتے ہیں۔
۴۔ یہ بڑھنا روکنے کے سگنلز کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔
۵۔ یہ خلیات کی پروگرامڈ موت کے عمل کو ترک کر دیتے ہیں۔
۶۔ یہ جسم کے دوسرے حصوں تک پھیلتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
کینسر میں آپ کا جسم آپ کو مارنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بلااجازت خودکشی ہے۔
کینسر کے خلیات عام خلیات کی طرح ہی ہیں۔ صرف یہ کہ یہ خلیات بڑھنے میں ہوشیار ہیں۔ اور چونکہ یہ عام خلیات کی طرح ہیں تو یہ جسم ان کو کسی بیرونی ایجنٹ کی طرح نہیں سمجھتا اور ویسا ردِعمل نہیں دکھاتا۔ اور یہ وجہ ہے کہ زیادہ تر کینسر اپنی ابتدائی صورت میں بغیر تکلیف کے اور نہ نظر آنے والے ہوتے ہیں۔ جب ٹیومر اتنا بڑھ جائے کہ اعصاب کو دبانے لگے یا اتنا بڑا ہو جائے کہ نظر آنے لگے تو پھر ہمیں پتا لگتا ہے کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ کئی بار اس سٹیج تک پہنچنے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں۔
کینسر کسی بھی دوسری بیماری کی طرح نہیں۔ اس کے حملے مسلسل ہیں۔ اور اپنے علاج کی بھی جسم سے قیمت وصول کرتا ہے۔ کئی بار پسپا ہو جاتا ہے۔ برسوں خاموش رہنے کے بعد خاموشی سے اور مجمتع ہو کر واپس آ جاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کینسر کے خلیات خودغرض ہیں۔ عام طور پر انسان خلیات اپنا کام کرتے ہیں اور پھر جب ہدایات ملتی ہیں تو بڑی بھلائی کی خاطر مر جاتے ہیں۔ کینسر کے خلیات ایسا نہیں کرتے۔ ان کی دلچسپی سماج (آپ کے جسم) میں نہیں، صرف خود میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں اب معلوم ہوا ہے کہ کینسر پھیلنے سے پہلے نئی جگہ پر (جو کوئی دور دراز کا عضو ہو سکتا ہے) اپنا گراونڈ ورک کرتے ہیں۔ شاید کسی طرح کی کیمیائی سگنل سے۔ ایسا نہیں کہ یہ خلیات منہ اٹھا کر کسی عضو میں اس امید پر پہنچ جاتے ہیں کہ وہاں جا کر دیکھی جائے گی۔ اس سے پہلے ہی نئی منزل پر بیس کیمپ بنایا جا چکا ہوتا ہے۔ آخر ایسا کیوں کہ کچھ طرح کے کینسر کسی خاص عضو تک کیوں جاتے ہیں اور عام طور پر دور دراز کی جگہوں میں؟ اس کا ہمیں معلوم نہیں ہے۔
اور یاد رہے کہ یہ دماغ کے بغیر خلیات ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ جان بوجھ کر ہمیں مارنے کی سازش بنا رہے ہیں۔ یہ وہی کر رہے ہیں جو خلیات کرتے ہیں۔ یعنی کہ زندہ رہنے کی کوشش۔
ورمور کے مطابق، “یہ دنیا ایک مشکل جگہ ہے۔ ہر خلیے کے پاس خود کو زندہ رکھنے کیلئے اور اپنے ڈی این اے کو نقصان سے بچانے کیلئے پروگرام ہیں۔ کینسر ارتقا کیلئے چکائی جانے والی قیمت ہے۔ اگر خلیات میوٹیٹ نہ کریں تو ہمیں کبھی کینسر نہ ہو۔ لیکن اگر خلیات میوٹیٹ نہ ہوں تو ارتقا ختم ہو جائے۔ سب کچھ جامد ہو جائے۔ ارتقا کی قیمت فرد پر بھاری ہو سکتی ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کینسر ایک بیماری نہیں۔ دو سو سے زائد مختلف بیماریوں کا مجموعہ ہے۔ اسی فیصد کینسر کارسنوما کہلاتے ہیں اور یہ epithelial خلیات میں ہوتے ہیں۔ یعنی جلد اور اعضا کی لائننگ میں۔ کینسر یہاں پر ہی کیوں عام ہے؟ اس لئے کہ یہ خلیات تیزی سے تقسیم ہوتے اور بڑھتے ہیں۔ صرف ایک فیصد کینسر کنکٹو ٹشو میں ہوتے ہیں اور یہ سارکوما کہلاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
کینسر کا سب سے زیادہ تعلق عمر کے ساتھ ہے۔ ایک اسی سالہ شخص کو کینسر ہونے کا امکان ٹین ایجر کے مقابلے یمں ایک ہزار گنا زیادہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طرزِزندگی کینسر کا ایک بڑا فیکٹر ہے۔ ایسے نصف کینسر ہیں جو ایسی چیزوں سے ہوتا ہے جن کے بارے میں ہم کچھ کر سکتے ہیں۔ سگریت نوشی، شراب نوشی اور زیادہ کھانا۔ موٹاپے کا تعلق چھاتی، جگر، کھانے کی نالی، آنت، پتے، گردہ، تھائیرائیڈ، معدے اور پراسٹیٹ کینسر کے ساتھ ہے۔ ایسا کیوں کہ وزن اس کا امکان بڑھا دیتا ہے؟ اس کا تو پتا نہیں لیکن یہ ایسا ہی ہے۔
ماحول بھی کینسر کا اہم فیکٹر ہے۔ لیکن ٹھیک سے پتا لگانا آسان نہیں۔ آج ہم اسی ہزار کیمیکل کمرشل طور پر پیدا کرتے ہیں۔ ان میں سے 86 فیصد ایسے ہیں جن کا انسانوں پر اثر ٹیسٹ نہیں کیا گیا۔ آپ نے شاید سنا ہو کہ فلاں شے سے کینسر ہوتا ہے لیکن زیادہ تر کے بارے میں قیاس آرائیاں ہیں۔ صرف تمباکو، ایسبسٹوس، ریڈون کو اچھی طرح سٹڈی کیا گیا ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ فضائی اور آبی آلودگی سے کتنا فرق پڑتا ہے۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ اس سے بیس فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وائرس اور بیکٹیریا بھی اس میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی سمیت چند جراثیم اس کے امکان میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور کبھی کینسر ظالمانہ طریقے سے بس ایسے ہی ہو جاتا ہے۔ دس فیصد لوگ جنہیں پھیپھڑے کا کینسر ہو، سگریٹ نوش نہیں ہوتے۔ یہ بس بدقسمتی سے ہو جاتا ہے۔ لیکن کیا اس قسمت کا تعلق جینیات سے تھا یا بالکل ایسے ہیں؟ یہ کہنا ناممکن ہے۔
بس ایک چیز جو ہر قسم کے کینسر کے بارے میں کہی جا سکتی ہے، وہ یہ کہ اس کا علاج آسان نہیں۔
(جاری ہے)