Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

بدن (93) ۔ وبائیں

زراعت کی آمد اور آبادیوں کا بننا وباوں کی آمد کا باعث تھا۔ لوگوں کا ایک دورے کے قریب رہنا، خوراک کے معیار میں کمی اور جانوروں کے ساتھ رہن...


زراعت کی آمد اور آبادیوں کا بننا وباوں کی آمد کا باعث تھا۔ لوگوں کا ایک دورے کے قریب رہنا، خوراک کے معیار میں کمی اور جانوروں کے ساتھ رہنا ۔۔ یہ وبائی امراض پھوٹنے کے عوامل تھے۔ جذام، طاعون، تپدق، خناق، خسرہ، فلو، ٹائفس ۔۔۔ یہ وہ چند بیماریاں ہیں جو ہمارے پالتو مویشیوں سے ہم تک پہنچی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم یاد نہیں رکھتے کہ کئی بیماریاں کس قدر زیادہ جان لیوا تھیں۔ 1920 کی دہائی میں خناق کی ویکسین بنی۔ یہ ہلکے بخار اور خراب گلے سے شروع ہوتی تھی اور جلد زیادہ سنجیدہ ہو جاتی تھی۔ گلے میں مردہ خلیوں کی تہہ بننے لگتی تھی۔ سانس لینا مشکل ہو جاتا تھا۔ یہ باقی جسم میں پھیلتی تھی۔ ایک کے بعد اگلے عضو کو معطل کر دیتی تھی۔ موت آنے میں بہت وقت نہیں لگتا تھا۔ کئی بار ایک ہی باری میں والدین اپنے خاندان کے تمام بچے اس کے ہاتھوں کھو بیٹھتے تھے۔ لاکھوں افراد کی جانیں لینے والی یہ بیماری اس قدر شاذ ہوتی ہے کہ اگر کسی کو ہو بھی جائے تو پہنچانے میں ڈاکٹروں کو دشواری ہو۔
ٹائیفائیڈ بخار بھی کم خطرناک نہ تھا۔ لوئی پاسچر سے زیادہ اپنے وقت میں جراثیم کو کوئی اور نہیں سمجھتا تھا۔ ان کے پانچ میں سے تین بچے ٹائیفائیڈ سے فوت ہوئے۔
ٹائیفائیڈ اب اتنا پریشان کن نہیں رہا جتنا ہوا کرتا تھا۔ لیکن ابھی بھی دنیا میں سالانہ دو کروڑ لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں۔ اور یہ دو سے چھ لاکھ کے قریب ہلاکتوں کا باعث بنتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ سب سے بری بیماری کا تصور کرنا چاہیں تو شاید چیچک اس کا جواب ہو۔ جو بھی اس کی لپیٹ میں آ جاتا تھا، بیمار ہو جاتا تھا اور تیس فیصد لوگ زندہ نہیں رہتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق بیسویں صدی میں پچاس کروڑ لوگوں کی موت کا سبب بنی۔
اس کی سب سے بڑی کمزوری یہ نکلی کہ یہ صرف انسانوں کو متاثر کرتی تھی۔ کئی دوسری بیماریاں (جیسا کہ فلو) انسانوں سے غائب ہو جائین تو پرندوں یا مویشیوں میں بسیرا کرتی ہیں۔ چیچک کا جراثیم ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ کسی وقت میں اس کی انسانوں سے باہر رہنے کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی۔ اور اس نے اپنے لئے غلط دشمن کا انتخاب کیا تھا جس نے اسے شکست دے کر ختم کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
چیچک کے جانے کے بعد سب سے مہلک متعدی مرض تپدق ہے۔ ہر سال پندرہ سے بیس لاکھ لوگ اسکی وجہ سے موت کا شکار ہوتے ہیں۔ آج یہ اتنی توجہ نہیں لیت لیکن دو نسلوں پہلے یہ تباہ کن تھی۔  یہ کسی کو بھی لگ سکتی تھی اور کچھ بھی نہیں کیا جا سکت تھا۔ مرنے میں بڑا وقت لگتا تھا۔ اہبت آخری وقت کے قریب مریض بہت خوش اور پرامید ہو جاتا تھا۔ یہ فینامینا spes phthiscia کہلاتا ہے جس کی وجہ نامعلوم ہے۔ لیکن اس فینامینا کی سب سے بری چیز یہ تھی کہ معلوم ہو جاتا تھا کہ اب موت قریب ہے۔
تپدق اب غریب اور کم آمدنی والے علاقوں کی بیماری سمجھی جاتی ہے لیکن ادویات سے مدافعت حاصل کر لینے والے سٹرین بڑھ رہے ہیں اور ایسا ممکن ہے کہ اس بیماری کو ہم واپس جلد آتا دیکھ لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
بیماریوں کے خلاف ہماری فتح بہت ہی محنت سے ہوئی ہے۔ جرمن پیراسٹولوجسٹ تھیوڈور بلہارز نے اپنا کیرئیر بیماریوں کا پتا لگانے کی دھن خود کو خطروں میں ڈالنے کیلئے مختص کر دیا تھا۔ cercarie worms کو اپنے پیٹ سے باندھ کر وہ نوٹس بنائے کہ یہ کھود کر ان کے جگر تک کیسے پہنچتے ہیں۔ یہ تحقیق schistosomiasis بیماری کیلئے تھی۔ ان کی وفات چھتیس سال کی عمر میں ہوئی جب وہ قاہرہ میں ٹائفس کی وبا پر تحقیق کر رہے تھے۔ ہووارڈ رکٹس نے بیکٹیریا میں رکٹسیا گروپ دریافت کیا۔ وہ میکسیکو میں وبائی مرض کی تحقیق کیلئے گئے۔ اس کا شکار ہوئے اور فوت ہو گئے۔ جیسی لازیر 1900 میں کیوبا گئے تا کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ زرد بخار مچھر سے پھلتا ہے۔ زرد بخار کا شکار ہوئے جو تجربے کیلئے خود کو کروایا تھا لیکن زندہ نہ بچ سکے۔ پرووازیک متعدی امراض کی تحقیق کیلئے  دنیا میں پھرے۔ انہوں نے ٹراکوما کا ایجنٹ دریافت کیا۔ جرمن جیل میں خود ٹائفس کا شکار ہو کر فوت ہو گئے۔ اور یہ فہرست بہت لمبی ہے۔
میڈیکل سائنس میں پیتھالوجسٹ اور پیراسٹولوجسٹ جتنا بے غرض گروہ شاید کوئی اور نہ ہو۔ انہوں نے بیماریوں کو فتح کرنے کیلئے اپنی جان داوٗ پر لگائیں اور ہمیشہ جیت نہ سکے۔ خاص طور پر انیسویں صدی کی آخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں ایسے بہت سے نام ملتے ہیں۔ ان کی یادگاریں تو کہیں نہیں لیکن آج بہت سے امراض کی غیرموجودگی پر ہم ان کے شکرگزار ہو سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آج متعدی امراض سے مرنے کا ریٹ کم ہو گیا ہے تو کئی دوسری بیماریوں نے ان کی جگہ لے لی ہے۔ اس میں خاص طور پر دو قسم کی بیماریاں نمایاں ہیں۔ اس کی جزوی وجہ یہ ہے کہ جن بیماریوں پر قابو پا لیا گیا ہے، ان سے نہ مرنے کی وجہ سے یہ سامنے آ گئی ہیں۔
ایک تو جینیاتی بیماریاں ہیں۔ بیس سال پہلے پانچ ہزار ایسی بیماریوں کا علم تھا۔ اب سات ہزار کا علم ہے۔ ایسا نہیں کہ ان میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ہماری انہیں پہچان لینے کی صلاحیت میں بہتری آئی ہے۔
عام طورایک بیماری میں ایک سے زیادہ جین ملوث ہوتے ہیں۔ آنت کی سوزش کی بیماری کا تعلق سو سے زیادہ جین سے ہے۔ ٹائپ ٹو کے ذیابیطس کا کم از کم چالیس جین سے۔ (اس کے علاوہ لائف سٹائل اور صحت کے عوامل بھی ہیں)۔ زیادہ تر بیماریاں پیچیدہ ٹرگر رکھتی ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی وجہ کی ٹھیک نشاندہی کرنا ناممکن ہے۔ مثلا، ملٹی پل سکلیروسس مرکزی اعصابی نظام کی بیماری ہے اور یہ چالیس سال سے کم عمر میں شروع ہوتی ہے۔ لیکن اس کا ایک جغرافیائی حصہ بھی ہے۔ شمالی یورپ میں یہ گرم ممالک کی نسبت زیادہ ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ متعدل موسم کا ریڑھ کی ہڈی پر حملہ کرنے پر اثر ہو گا؟ یہ کچھ واضح نہیں۔ لیکن یہ اثر واضح ہے۔ اگر شمالی علاقوں میں پیدا ہونے والا اپنے لڑکپن سے پہلے جنوب کی طرف چلا جائے تو بھی اس کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ اور یہ بیماری صنفی بھی ہے۔ خواتین کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ اس کا بھی اندازہ نہیں کہ ایسا کیوں ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ جینیاتی بیماریوں میں سے بہت سی ایسی ہیں جو نایاب ہیں۔ مثلا، پکنوڈائسوسٹوسس کے مرض میں بچپن کے بعد ٹانگیں بڑھنا بند ہو جاتی ہیں جبکہ دھڑ بڑھتا رہتا ہے۔ تاہم اس بیماری کا شکار ہونے والے ابھی تک صرف 200 لوگ ریکارڈ پر ہیں۔
نایاب بیماری اس کو کہا جاتا ہے جو 2000 میں سے ایک شخص کو ہو۔ لیکن یہاں ایک اور تضاد ہے۔ نایاب بیماریوں کی تعداد اس قدر ہے کہ ہر 17 میں سے ایک شخص کسی نہ کسی نایاب بیماری کا شکار ہوتا ہے۔
اور جب کوئی بیماری نایاب ہو تو اس پر تحقیق پر توجہ بھی نہیں ہوتی۔ نوے فیصد نایاب بیماریوں کا کوئی بھی علاج نہیں۔
(جاری ہے)