Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

بدن (92) ۔ بیماری

آئس لینڈ کے قصبے آکوریری میں 1948 کی خزاں میں لوگ بیمار ہونے لگے۔ 9600 کی آبادی میں سے 500 لوگ کو مختلف علامات نظر آنے لگیں۔ سردرد، ڈیپر...


آئس لینڈ کے قصبے آکوریری میں 1948 کی خزاں میں لوگ بیمار ہونے لگے۔ 9600 کی آبادی میں سے 500 لوگ کو مختلف علامات نظر آنے لگیں۔ سردرد، ڈیپریشن، قبض، بے خوابی، جسم میں درد، بے چینی اور تھکن۔ اس بیماری سے کوئی مرا تو نہیں لیکن اس کا شکار ہونے والا ہر مریض کئی مہینوں تک بیمار رہا۔ اس کی وجہ معلوم نہیں ہوئی۔ تمام ٹیسٹ منفی تھے۔ قصبے کی مناسبت سے اسے آکوریری بیماری کہا جانے لگا۔
ایک سال تک کچھ اور نہیں ہوا۔ پھر دور دراز کے علاقوں میں یہ پھل گئی۔ الاسکا کے شہر سیوارڈ، لوئی وِل، برطانیہ کے شمال میں ڈالسٹن۔۔۔  1950 میں امریکہ میں دس جگہ پر اور یورپ میں تین جگہ پر اس کی وبا پھیلی۔ سب سے عجیب بات یہ تھی کہ یہ بڑی دور دراز کی چند آبادیوں تک تو پہنچ گئی لیکن ان کے ہمسائیوں میں نہیں۔
ان کو بہت توجہ نہیں ملی لیکن 1970 میں اس وبا نے ٹیکساس میں ائیرفورس بیس پر سر اٹھایا۔  اور پھر میڈیکل میں اسے قریب سے دیکھا جانے لگا۔ یہاں پر ایک ہفتے میں 221 لوگ بیمار ہوئے جو ایک ہفتے سے ایک سال کے درمیان بیمار رہے۔ کئی بہت چھوٹے بچے بھی تھے۔ اور پھر دو ماہ تک پھیلنے کے بعد اچانک ہی یہ ختم ہو گیا۔ پھر یہ کہیں پر بھی واپس نہیں آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
متعدی امراض عجیب ہیں۔ کئی اچانک ہی کہیں پھوٹ پڑتی ہیں اور پھر کہیں اور کا رخ کرتے ہیں اور ختم ہو جاتے ہیں۔ کئی کسی فاتح فوج کی طرح زمین پر قبضہ جماتے جاتے ہیں۔ کئی اچانک تباہی مچا دیتے ہیں اور پھر خاموشی سے ختم ہو جاتے ہیں۔
برطانیہ میں 1458 سے 1551 کے درمیان ایک خوفناک بیماری بار بار آتی ہرہی۔ یہ “پسینے کی بیماری” تھی۔ اس نے ہزاروں جانیں لیں۔ اور پھر ختم ہو گئی۔ واپس کبھی نہیں آئی۔ اس سے دو سو سال بعد یہ فرانس میں نظر آئی اور کچھ عرصے بعد وہاں سے بھی ختم ہو گئی۔
ایسی نا سمجھ میں آنے والی وبائیں بہت عام ہیں۔ 2015 میں وسکونسن میں 54 لوگ ایک انفیکشن کا شکار ہو گئے جو الزبتھ کنگیا تھی۔ ان میں سے پندرہ انتقال کر گئے۔ یہ ایک بہت عام جراثیم ہے جو مٹی میں پایا جاتا ہے۔ اچانک ہی ایک علاقے میں یہ انسانوں میں بیماری کیوں کرنے لگا اور پھر رک کیوں گیا۔ اس کا کچھ اندازہ نہیں۔ اس طرح پواسن وائرس ہر سال چھ کے قریب لوگوں کو بیمار کرتا ہے۔ اس کا کوئی علاج یا دوا نہیں۔ چند لوگ خود ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ چند کو مستقل دماغی ضرر پہنچتا ہے اور دس فیصد زندہ نہیں بچ پاتے۔
ٹولاریمیا چچڑی سے پھیلتی ہے۔ ہر سال 150 ہلاکتوں کا سبب بنتی ہے۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں آرکنساس میں ہوتی ہیں۔ اس کے بالکل ساتھ الابامہ ہے۔ یہاں پر موسم، مٹی اور چچڑیوں کی آبادی بالکل ویسی ہی ہے لیکن یہاں پر یہ بیماری نہیں۔
نہ سمجھ میں آنے والی وباوں کی فہرست بہت لمبی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آیا کوئی بیماری وبا بنتی ہے یا نہیں؟ اس کا انحصار چار عوامل پر ہے۔
یہ کس قدر مہلک ہے؟
کتنی آسانی سے نیا شکار ڈھونڈ لیتی ہے؟
اس کو روکنا کتنا آسان یا مشکل ہے؟
اس کے خلاف ویکسین تیار کی جا سکتی ہے؟
زیادہ تر خوفناک بیماریاں ان چاروں میں اچھی نہیں ہوتیں۔ ایبولا بہت مہلک بیماری ہے۔ اپنے شکار کو بہت سرعت سے ختم کر دیتی ہے۔ اور بہت ہی زیادہ تیزی سے دوسرے کو لگ جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایک خون کے چھوٹے قطرے میں ایبولا کے دس کروڑ ذرات ہو سکتے ہیں۔ اور ہر کوئی کسی ہینڈ گرینیڈ کی طرح مہلک ہو سکتا ہے۔ لیکن اپنی اسی تیزی کی وجہ سے اسے زیادہ بڑھنے کا موقع نہیں ملتا۔
ایک کامیاب وائرس وہ ہے جو زیادہ لوگوں کو نہ مارے اور پھیلنے میں اچھا ہو۔ اس وجہ سے فلو ہمیشہ سے ایک خطرہ رہا ہے۔ کووڈ نے کئی ملین لوگوں کی جان لے لی جبکہ اس سے ہلاکت کا ریٹ صرف ڈیڑھ فیصد رہا ہے۔ 1918 میں کروڑوں لوگوں کی موت کا باعث بننے والے سپینش فلو کا ہلاکت کا ریٹ ڈھائی فیصد تھا۔ اگر ایبولا کا کوئی معتدل ویری انٹ آ گیا تو پھر بڑا خطرہ ہو گا۔
(جاری ہے)