انسان کی ابتدا دو خلیوں سے ہوتی ہے۔ ایک والد کی طرف سے نطفہ۔ دوسرا والدہ کی طرف بیضہ۔ بیضے کا سائز سو گنا زیادہ ہوتا ہے۔ جب یہ ملتے ہیں تو ب...
انسان کی ابتدا دو خلیوں سے ہوتی ہے۔ ایک والد کی طرف سے نطفہ۔ دوسرا والدہ کی طرف بیضہ۔ بیضے کا سائز سو گنا زیادہ ہوتا ہے۔ جب یہ ملتے ہیں تو بیضہ اپنے ننھے سے دوست کو خوش آمدید کرتا ہے۔ نطفہ ایک بیرونی رکاوٹ عبور کرتا ہے۔ یہ zona pellicida ہے۔ اور اگر سب کچھ ٹھیک رہے تو پھر یہ دونوں مدغم ہو جاتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ایک برقی فورس فیلڈ متحرک ہو جاتا ہے جو دوسرے سپرم کو آنے سے روک دیتا ہے۔ ان کا یہ ادغام زائگوٹ ہے۔ اب وہ عمل شروع ہو گیا جو نئی زندگی کا آغاز ہے۔
لازمی نہیں کہ یہ کامیاب رہے۔ نصف سے زیادہ اس کے بعد خاموشی سے ناکام ہو جاتے ہیں جن کا پتا بھی نہیں لگتا۔ اور ایسا نہ ہو تو پھر پیدائشی نقائص کی شرح بارہ فیصد ہو (جبکہ یہ صرف دو فیصد ہوتی ہے)۔
اور اگر اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے تو ایک ہفتے میں زائگوٹ سے دس کے قریب خلیات بن چکے ہوتے ہیں۔ یہ pluripotent stem cells ہیں۔ یہ بائیولوجی کا ایک بڑا معجزہ ہیں۔ یہ طے کرتے ہیں کہ آنے والے اربوں خلیات کی تنظیم اور نیچر کیسی ہو گی۔ اور ان سے ننھا منا اور پیارا سا انسان کیسے برآمد ہوں گے۔ وہ موقع ان ایک جیسے خلیات سے بننے والے نئے خلیات میں تفریق ہونے لگتی ہے gastrulation کہلاتا ہے۔ اور یہ ایک بہت اہم وقت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب بڑھنے کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ تین ہفتوں کے بعد اس نئے وجود میں دھڑکتا دل آ جائے گا۔ 102 دنوں میں آنکھیں جو جھپک سکتی ہوں گی۔ 280 روز میں بچہ دنیا میں آنے کیلئے تیار ہو گا۔ اس دوران خلیات کی تقسیم کے 41 سائیکل ہوئے ہوں گے تا کہ پہلی خلیے سے چھوٹے انسان تک پہنچا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دوران میں والدہ کے جسم میں تبدیلیاں آ رہی ہوں گی۔ ان میں سے ایک ہونے والی متلی (morning sickness) ہے جو عام طور پر ابتدائی تین مہینوں میں رہتی ہے۔
یہ ہوتی کیوں ہے؟ اس کی سب سے عام تھیوری یہ ہے کہ اس کی وجہ سے ماں اس وقت میں کھانے میں احتیاط رکھتی ہے۔ لیکن یہ اس بات کی وضاحت نہیں کرتا کہ یہ چند ہفتوں بعد کیوں رک جاتی ہے۔ حالانکہ اس وقت بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اگر محفوظ غذا بھی لی جائے، تب بھی فرق کیوں نہیں پڑتا۔
بہرحال، morning sickness کی وجہ کے ٹھیک سے پتا نہ ہونے کے علاوہ نہ ہی اس کا علاج ہے اور 1960 کی دہائی میں تھالیڈومائیڈ کے تباہ کن نتائج کے بعد نہ ہی اس بارے میں کسی تحقیق ہونے کا جلد امکان ہے۔
(جاری ہے)