کئی بار کہا جاتا ہے کہ مرد اور خاتون میں جینیاتی فرق اس سے زیادہ ہیں جتنے انسان اور چمپینزی میں ہیں۔ سخت ریاضی کے حساب سے یہ بات درست ہے۔ مر...
کئی بار کہا جاتا ہے کہ مرد اور خاتون میں جینیاتی فرق اس سے زیادہ ہیں جتنے انسان اور چمپینزی میں ہیں۔
سخت ریاضی کے حساب سے یہ بات درست ہے۔ مرد اور خاتون کے درمیان 1.8 فیصد جین کا فرق ہے (یہ وائے کروموزوم کے 59 ملین پیئر ہیں)۔
لیکن چونکہ ہم سخت ریاضی کے ساتھ ساتھ کامن سینس بھی رکھتے ہیں تو یہ جانتے ہیں کہ یہ بالکل بے معنی بات ہے۔
ایک جنس کے چمپینزی اور انسان میں 98.8 فیصد جین مشترک ہیں (اس کا انحصار اس پر بھی ہے کہ یہ پیمائش کیسے کی جاتی ہے) لیکن اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں کہ یہ ہم سے صرف 1.2 فیصد مختلف ہیں۔ چمپینزی گفتگو نہیں کر سکتے، کھانا نہیں بنا سکتے یا چار سال کے بچے کی ذہانت میں مات نہیں دے سکتے۔
واضح طور پر، اہم بات یہ نہیں کہ جین کونسے ہیں بلکہ یہ کہ ان کا اظہار کیسے ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن مرد اور خاتون بلاشبہ کئی چیزوں میں بہت مختلف ہیں۔ خواتین کی ہڈیاں جلد گھس جاتی ہیں۔ بڑھاپے میں جلد ٹوٹ جاتی ہیں۔ خواتین کو الزائمر ہونے کا امکان دگنا ہے۔ آٹوامیون بیماریاں زیادہ ہوتی ہیں۔ اگر الکوحل استعمال کر لیں تو اس کا میٹابولزم مختلف ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ اثر جلد ہوتا ہے اور اس کے استعمال سے جگر کی بیماریاں زیادہ تیزی سے ہو جاتی ہیں۔
خواتین کے تھیلا اٹھانے کا انداز بھی عام طور پر مختلف ہو گا۔ اس میں ہتھیلیاں سامنے کی طرف ہوتی ہیں جبکہ مرد اس کے مختلف طریقے سے اٹھاتے ہیں۔
مرد اور خاتون میں ہارٹ اٹیک کی علامات بھی ایک سی نہیں۔ خاتون کو پیٹ میں تکلیف اور متلی ہونے کا زیادہ امکان ہے جس وجہ سے اس کی تشخیص میں غلطی زیادہ ہوتی ہے۔ ہزاروں چھوٹی بڑی چیزوں میں مرد اور خاتون الگ ہیں۔
مردوں میں پارکنسن زیادہ ہوتی ہیں۔ خودکشی کا رجحان زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے جبکہ ڈیپریشن کم۔ انفیکشن کا امکان زیادہ ہوتا ہے (ایسا نہ صرف انسان کے ساتھ ہے بلکہ زیادہ تر انواع میں نر میں انفیکشن جلد ہوتا ہے) اور اس کی جینیاتی وجہ کا ہمیں علم نہیں۔ مردوں میں انفیکشن اور چوٹ سے مرنے کا امکان زیادہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سب فرق بس کچھ دلچسپ سے باتیں نہیں، بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ تاریخی طور پر ادویات کے ٹرائل خواتین پر نہیں کئے جاتے رہے۔ عام خیال یہی رہا ہے کہ “بھلا، سردرد کی دوا میں خاتون اور مرد کا کیا فرق؟”۔ لیکن یہ درست نہیں۔ 2007 میں ایک جریدے نے اس سے پچھلے دس سال میں ہونے والے ٹرائلز کا ڈیٹا اکٹھا کیا۔ ان میں 80 فیصد ٹرائل صرف مردوں پر کئے گئے تھے۔ اور یہ سنجیدہ مسئلہ ہے کیونکہ خواتین اور مردوں میں دوا کے اثر میں فرق ہو سکتا ہے جو ان ٹرائلز میں پکڑا نہیں جاتا۔ کھانسی اور نزلے کیلئے phenylpropanolamine کئی سال تک عام استعمال کی جاتی رہی۔ پھر پتا لگا کہ خواتین میں یہ ہیمرج سٹروک کا امکان بڑھا دیتی ہے جبکہ یہ اثر مردوں میں نہیں تھا۔ ایک اینٹی ہسٹامین دوا Hismanal اور ایک بھوک کیلئے دوا Pondimin کو بھی اسی طرح روک دیا گیا جب پتا لگا کہ یہ خواتین کے لئے محفوظ نہیں۔ ان میں سے پہلی دوا گیارہ سال جبکہ دوسری چوبیس سال تک فروخت ہوتی رہی تھی۔ نیند کی دوا Ambien کا اثر خواتین پر مردوں کی نسبت زیادہ نکلا، جس وجہ سے 2013 میں اس کی خواتین کے لئے تجویز کردہ ڈوز کو کم کر دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواتین ایک اور بڑی اہم طرح سے مختلف ہیں۔ یہ انسانی مائیٹوکونڈریا کو محفوظ رکھتی ہیں۔ یہ ہمارے خلیات کا پاورہاوس ہے۔ نسل در نسل مائیٹوکونڈریا کی انفارمیشن صرف والدہ کی طرف سے آگے منتقل ہوتی ہے۔ اس سسٹم کا مطلب یہ ہے کہ ایک خاتون اپنے تمام بچوں کو اپنا مائیٹوکونڈریا دیتی ہے لیکن صرف اس کی بیٹیاں اس کو اگلی نسل تک منتقل کرتی ہیں۔ اگر کسی خاتون کی اولاد نہ ہو یا پھر صرف بیٹے ہوں تو یہ سلسلہ ٹوٹ جائے گا۔
مائیٹوکونڈریا کا ڈی این اے (mtDNA) ماہرِ جینیات کے لئے بہت دلچسپی کا حال ہے۔ اس سے جینیات کی جغرافیائی تقسیم، ہجرتوں کی تاریخ اور دوسری تاریخ معلومات کا بھی معلوم کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواتین کے بارے میں میڈیکل کی تاریخ حیرت انگیز ططور پر خاموش رہی ہے۔ خواتین کے معاملات میڈیکل سائنس میں طویل عرصے تک نامعلوم رہے۔ خواتین کی صحت کیلئے زندگی کا اہم واقعہ menopause ہے۔ اس میں کچھ نایاب نہیں لیکن یہ لفظ پہلی بار 1858 میں انگریزی میں آیا۔
ڈاکٹروں کی طرف سے پیٹ کا معائنہ شاذ ہی کیا جاتا تھا۔ گردن سے نیچے کسی چیز کے چیک اپ کا ایک طریقہ یہ تھا کہ ڈاکٹر ایک ڈمی رکھتے تھے اور پوچھتے تھے کہ اس کو ہاتھ لگا کر بتایا جائے کہ متاثرہ حصہ کونسا ہے۔ جب سٹیتھوسکوپ ایجاد ہوئی تو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ اب ڈاکٹر مریضہ کے دل کی دھڑکن کو اسے چھوئے بغیر سن سکتا تھا۔