Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

بدن (87) ۔ جنس کا تعین

ہمیں بہت لمبے عرصے تک یہ پتا نہیں کہ پیدائش کے وقت کوئی لڑکا کیوں ہوتا ہے اور کوئی لڑکی کیوں؟ جنس کا تعین آخر ہوتا کیسے ہے؟ کروموزوم کی دری...


ہمیں بہت لمبے عرصے تک یہ پتا نہیں کہ پیدائش کے وقت کوئی لڑکا کیوں ہوتا ہے اور کوئی لڑکی کیوں؟ جنس کا تعین آخر ہوتا کیسے ہے؟ کروموزوم کی دریافت 1880 میں والڈائر ہارٹز نے کر گئی تھی، لیکن اس کی اہمیت کا ٹھیک سے پتا نہیں تھا۔
اب ہمیں معلوم ہے کہ مادہ میں دو ایکس کروموزوم ہوتے ہیں اور نر میں ایک وائے اور ایک ایکس۔ لیکن اس کا پتا لگنے میں وقت لگا۔ انیسویں صدی کے آخر تک سائنسدانوں کا عام خیال یہ تھا کہ جنس کا تعین کیمسٹری سے نہیں بلکہ بیرونی عوامل سے ہوتا ہے، جیسا کہ غذا یا درجہ حرارت یا پھر حمل کے دوران ماں کے موڈ سے۔۔۔
اس معمے کو حل کرنے کا پہلا قدم 1891 میں لیا گیا۔ جب جرمنی کے ہرمان ہینکنگ نے ایک کیڑے (pyrrhocoris) میں ایک چیز نوٹ کی۔ ایک کروموزوم ہمیشہ لاتعلق سا نظر آتا تھا۔ اس کی اس خاصیت کی بنا پر اسے ایکس کروموزوم کا نام دیا۔
اس سے چودہ برس بعد بڑا بریک تھرو ہوا۔ نیٹو سٹیونس سسریوں (mealworms) پر تجربات کر رہی تھیں جب انہوں نے ایک اور تنہا کروموزوم دریافت کیا۔ اور یہ ان کی دریافت تھی کہ اس کا کردار جنس کے تعین میں ہو سکتا ہے۔ اس کو انہوں نے وائے کروموزوم کا نام دیا۔ (یہ ہینکنگ کے دریافت کردہ ایکس سے اگلا حرف چنا گیا تھا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیٹی سٹیونز کو زیادہ مشہور ہونا چاہیے تھا۔ اگر ان کی دریافت کی اہمیت اس وقت سمجھ لی جاتی تو یقینی طور پر وہ نوبل انعام یافتہ ہوتیں۔ یہی دریافت بالکل الگ اور آزادانہ طور پر ایڈمنڈ ولسن نے بھی کی۔ دونوں میں سے پہلے کون تھا؟اس پر تنازعہ رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخی طور پر کروموزوم کا مطالعہ آسان نہیں رہا۔ یہ اپنا وجود خلیے کے نیوکلئیس میں لپٹ کر گزارتے ہیں۔ ان کو گننے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ خلیات میں سے تازہ سیمپل اس وقت لیا جائے جب تقسیم ہو رہی ہو اور یہ انتہائی دشوار کام تھا۔
اور اس کے بعد بھی ان کی گنتی آسان نہیں تھی۔ 1921 میں ٹیکساس یونیورسٹی کے تھیوفلس پینٹر نے اعلان کیا کہ انہیں اچھے امیج مل گئے ہیں اور ان کی گنتی کے مطقبق کروموزوم کے چوبیس جوڑے ہیں۔ اگلے 35 سال تک یہی عدد درست سمجھا جاتا رہا۔ 1956 میں قریبی معائنے سے پتا لگا کہ یہ تعداد 23 کروموزوم کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے بہت پہلے اچھی تصاویر دستیاب تھیں۔ صرف یہ بات تھی کہ کسی نے انہیں گنا نہیں تھا۔ اس قدر سادہ تصصیح ہمیں یہ بتاتی ہے کہ روایتی اور قبول کئے گئے حقائق، خواہ سائنس میں ہی کیوں نہ ہوں، آسانی سے تبدیل نہیں ہوتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کونسی شے ہماری جنس کا تعین کرتی ہے؟ یہ علم بہت پرانا نہیں۔ 1990 میں لندن کی دو تحقیقاتی ٹیموں نے اس اس علاقے کی شناخت کی جہاں سے جنس کا تعین ہوتا ہے۔ یہ SRY جین ہے۔ ان گنت لڑکوں اور لڑکیوں کی پیدائش کے بعد انسانوں نے آخر پتا لگا ہی لیا کہ یہ ہوتا کیسے ہے۔
(جاری ہے)