ہمیں اندازہ نہیں کہ ہم بوڑھے کیوں ہوتے ہیں۔ نہیں، بلکہ بہت سے اندازے ہیں کہ ہم بوڑھے کیوں ہوتے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں کہ کونسا والا ٹھیک ہے...
ہمیں اندازہ نہیں کہ ہم بوڑھے کیوں ہوتے ہیں۔ نہیں، بلکہ بہت سے اندازے ہیں کہ ہم بوڑھے کیوں ہوتے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں کہ کونسا والا ٹھیک ہے۔
روسی بائیولوجسٹ زورس میڈواڈیو نے 1992 میں جب گنتی کی تھی تو ایس تین سو تھیوریاں موجود تھیں جو وضاحت کرتی تھیں کہ ہم بوڑھے کیوں ہوتے ہیں۔ پچھلی دہائیوں میں اس تعداد میں کچھ اضافہ ہی ہوا ہے۔
اس میں تین کیٹگری کی تھیوریاں ہیں۔ جینیاتی میوٹیشن والی (جین کا فنکشن خراب ہو جانا آپ کو مار دیتا ہے)، شکستہ حالی ہو جانے کی (جسم کو زمانہ کے تھپیڑے شکستہ کر دیتے ہیں) اور خلیاتی فضلہ جمع ہونے کی (وقت کے ساتھ خلیات زہریلے بائی پراڈکٹ سے بھر جاتے ہیں)۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ تینوں عوامل ہوں یا پھر کچھ بالکل ہی اور ہو۔ اس کا کسی کو پتا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیونارڈ ہے فلک نے 1961 میں ایک دریافت کی جو ان کے شعبے کیلئے قبول کرنا بہت مشکل تھا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ انسانی سٹیم سیل کا کلچر (یعنی کہ وہ خلیات جو انسانی جسم میں نہیں بلکہ لیبارٹری میں بڑھائے گئے ہوں) صرف پچاس بار کے قریب تقسیم ہو سکتا ہے۔ اور پھر یہ کسی پرسرار وجہ سے ایسا کرنے کی طاقت کھو دیتا ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ ان میں بوڑھے ہو کر مرنے کا پروگرام تھا۔ اس کو ہے فلک لمٹ کہا جاتا ہے۔ یہ بائیولوجی میں ایک بڑی دریافت تھی کیونکہ خلیے کے اندر ایسا کسی نے پہلی بار دیکھا تھا۔ ہے فلک نے دریافت کیا کہ اگر خلیات کو منجمد کر لیا جائے، جتنی مرضی دیر اسے سٹوریج میں رکھا جائے، لیکن جب اسے دوبارہ غیرمنجمد کر دیں تو پھر بھی تقسیم شروع ہونے پر بالکل اسی جگہ پر مزید تقسیم ختم ہو جاتی تھی۔ کہیں نہ کہیں ایسی ڈیوائس موجود تھی جو یہ حساب رکھتی تھی کہ کتنی بار تقسیم ہو چکی۔ یہ خیال کہ خلیات کسی قسم کی یادداشت رکھتے ہیں اور گنتی کر سکتے ہیں تا کہ اپنی موت کا خود طے کر سکیں ۔۔۔۔ روایتی دانائی کے اس قدر خلاف تھا کہ اس کو سب نے مسترد کر دیا۔
ایک دہائی تک ہے فلک کی دریافت پس منظر میں رہی۔ پھر سان فرانسسکو میں محققین کی ایک ٹیم نے دریافت کیا کہ ہر کروزوم میں ڈی این اے کی لڑی کے آخر میں خاص ڈی این اے ہے۔ یہ ٹیلومئیر تھے جو یہ والی گنتی کرنے کا آلہ ہیں۔ ہر تقسیم کے ساتھ اس کا سائز گھٹ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ ایک خاص لمبائی تک پہنچ جاتے ہیں۔ (یہ خاص لمبائی ہر قسم کے خلیے کے لئے مختلف ہے)۔ اور اس کے بعد خلیہ یا تو مر جاتا ہے یا پھر غیرفعال ہو جاتا ہے۔
اس دریافت کے بعد ہے فلک لمٹ کا آئیڈیا اچانک ہی قابلِ قبول ہو گیا۔ اسے بڑھاپے کے علاج کا راز سمجھا جانے لگا۔ ٹیلومئیر کو چھوٹا ہونے سے روک دیا جائے تو پھر عمررسیدہ ہونے سے نجات مل جائے گی۔ اس نے بہت سے بڑھاپے کے محققین کو پرجوش کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن افسوسناک بات یہ نکلی کہ اگلے برس ہا برس کی تحقیات بتاتی ہیں کہ ٹیلومئیر کا چھوٹا ہونا ایک بڑے پراسس کا صرف چھوٹا سا حصہ ہے۔ یوٹاہ یونیورسٹی کے محققین کی ٹیم نے دریافت کیا یہ بوڑھے ہو کر مرنے کے اضافی رسک میں سے صرف چار فیصد کا تعلق اس سے ہے۔ جوڈتھ کامپیسی نے 2017 میں کہا، “اگر بڑھاپے کا تعلق ٹیلومئیر کی لمبائی سے ہوتا تو ہم اس کو کب کا حل کر چکے ہوتے”۔
نہ صرف یہ کہ عمررسیدہ ہونے میں ٹیلومئیر کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے بلکہ ٹیلومئیر بھی اس گنتی کے علاوہ بہت کچھ اور کرتے ہیں۔ ان کی کیمسٹری کی ریگولیشن ایک انزائم سے ہوتی ہے جو ٹیلومیریز ہے۔ جب ایک خلیہ اپنی تقسیم کے مختص کوٹا تک پہنچ جاتا ہے تو یہ خلیے کو آف کر دیتی ہے۔
لیکن کینسرزدہ خلیات میں یہ تقسیم کرنے کی یہ ہدایت نہیں ہوتی۔ اور یہ لامحدود بار تقسیم ہو سکتے ہیں۔ اور یہاں پر ہمیں اس کی سمجھ سے کینسر پر قابو پانے کی امید بھی نظر آتی ہے۔ اگرچہ ہم اسے سمجھنے کے قریب بھی نہیں لیکن لگتا ایسا ہے کینسر پر قابو اور عمر میں اضافے کیلئے اس کی ریگولیشن الٹ ہیں۔ یعنی عمررسیدہ ہونے کی رفتار میں کمی کینسر ہو جانے کے امکان کو بہت بڑھا دے گی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو مزید اصطلاحات عام ہیں (استعمال عام ہے لیکن سمجھ نہیں)۔ ایک “اینٹی آکسیڈنٹ” اور دوسرا “آزاد ریڈیکل”۔ آزاد ریڈیکل خلیات کے فضلے میں سے ننھے سے ذرات ہیں جو میٹابولزم کے ساتھ جسم میں بنتے جاتے ہیں۔ یہ ہمارے آکسیجن کے تنفس کا بائی پراڈکٹ ہیں۔ ایک سائنسدان کے الفاظ میں۔ “ہمارے سانس لینے کی بائیوکیمیکل قیمت عمر رسیدہ ہو جانا ہے”۔ اینٹی آکسیڈنٹ وہ مالیکیول ہیں جو انہیں ناکارہ بناتے ہیں۔ اور اس وجہ سے بہت سے سپلیمنٹ میں انہیں دیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ایسے کوئی شواہد نہیں کہ انہیں کھانے سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ یہ اچھا کاروبار ضرور ہے جس کی “سائنسی” مارکٹنگ کی جاتی ہے۔
ان کی سالانہ فروخت دو ارب ڈالر ہے۔ عمررسیدہ ہونے سے بچنے کی بڑی موہوم سے امید بھی بڑا بزنس ہے۔
(جاری ہے)