“ہم جھوٹ بولتے ہیں، دھوکہ دہی کرتے ہیں اور اس سب کے اس قدر اچھے جواز بنا لیتے ہیں کہ ہم دیانتداری سے یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہم دیانتدار ہیں”۔ ...
“ہم جھوٹ بولتے ہیں، دھوکہ دہی کرتے ہیں اور اس سب کے اس قدر اچھے جواز بنا لیتے ہیں کہ ہم دیانتداری سے یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہم دیانتدار ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانیہ میں ممبرانِ پارلیمنٹ کو اجازت تھی کہ وہ اپنے دوسرے گھر کی مرمت اور دیکھ بھال کا مناسب حد تک خرچہ حکومت سے لے سکتے ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ پارلیمنٹ کا ممبر ہونے کی وجہ سے انہیں لندن میں بھی رہائش رکھنا پڑتی تھی۔ چونکہ اس خرچ کی درخواست ہمیشہ منظور ہو جایا کرتی تھی اور یہ پبلک نہیں تھا، اس لئے ممبرانِ پارلیمنٹ اس کو بلینک چیک کے طور پر دیکھتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک اخبار نے ایسے اخراجات کی ایک کاپی 2009 میں لیک کر دی۔
اور ممبرانِ پارلیمنٹ نے جو کیا تھا، وہ کمال تھا۔ اس سہولت کے تحت بڑی تعمیرِ نو کروا لی۔ اور پھر کسی اور گھر کو اپنا دوسرا گھر ڈیکلئر کر دیا اور پھر اس کی بھی بڑی تعمیرِ نو کروا لی۔ کئی بار اس کے بعد بھاری منافع پر گھر بیچ دیا۔
ہر ملک میں کامیڈی شو ہمیشہ ایسے مواد سے بھرے ہوتے ہیں جہاں ہم طاقت کے مراکز کے نہ ختم ہونے والے سکینڈل پر بنائے مذاق پر ہنستے ہیں۔ لیکن کیا ہم خود اپنے لیڈروں سے بہتر ہیں؟ کیا ہمیں اپنی آنکھ کا شہتیر دیکھنا چاہیے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی ماہرینِ نفسیات plausabile deniability کے ایفیکٹ کو سٹڈی کر چکے ہیں۔ کیشئیر نے لوگوں کو ادا کی جانے والی رقم میں ہندسہ غلط پڑھ لیا اور زیادہ پیسے دے دئے۔ صرف 20 فیصد ایسے تھے جنہوں نے غلطی ٹھیک کروائی۔
لیکن یہ اس وقت بدل گیا جب کیشئیر نے پوچھا کہ کیا ادا کی گئی رقم درست ہے۔ اب 60 فیصد نے کہا کہ “نہیں” اور اضافی پیسے واپس کر دئے۔
براہِ راست پوچھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو پیسے اپنے پاس رکھنے کے لئے براہِ راست جھوٹ بولنا ہوتا۔ اور اس وجہ سے تین گنا لوگ دیانتدار ہو گئے۔
کون پیسے واپس کر دے گا؟ آپ اس کی پیشگوئی اس بنا پر نہیں کر سکتے کہ لوگ خود کو کتنا دیانتدار کہتے ہیں۔ یا پھر کسی امتحان میں اخلاقی مخمصے کا کتنا خوبصورت جواب دیتے ہیں۔ چونکہ ہمارے اخلاقی رویے کا کنٹرول اخلاقی ریزننگ کے پاس نہیں، اس لئے ایسا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈان ایریلی نے اپنے تجربات کئے جس میں شرکاء کو دئے جانے والے پیسے اس پر تھے کہ وہ کتنے سوال درست کرتے ہیں اور چیکنگ انہوں نے خود ہی کرنی تھی۔ ایریلی کا اخذ کردہ نتیجہ تھا۔
“جب موقع ملے تو بہت سے دیانتدار لوگ چیٹنگ کرتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ ایسا کرتے ہیں، لیکن ایسے کہ چیٹنگ سے ہونے والا فائدہ بہت زیادہ نہ ہو”۔
ایسا نہیں کہ لوگ اندھا دھند ایسا کرتے ہیں بلکہ صرف اس مقام تک چیٹنگ کرتے ہیں جس کا وہ خود کو جواز دے سکیں اور اس بات پر یقین قائم رکھ سکیں کہ وہ دیانتدار ہیں۔
اپنی ساکھ کو خود اپنی نظروں میں برقرار رکھنا ہمارے لئے اہم ہے کیونکہ اپنی نظروں میں ہم نیک ہیں۔ ہم دیانتداری سے یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہم دیانتدار ہیں۔
(جاری ہے)