Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

اخلاقی نفسیات (21) ۔ سماجی قطب نما

سو سال سے ماہرینِ نفسیات خوداعتمادی کی ضرورت پر لکھ رہے ہیں۔ خودآگاہی کے موضوع کے بڑے محقق مارک لئیری کا خیال ہے کہ ارتقائی نفسیات میں خودا...


سو سال سے ماہرینِ نفسیات خوداعتمادی کی ضرورت پر لکھ رہے ہیں۔ خودآگاہی کے موضوع کے بڑے محقق مارک لئیری کا خیال ہے کہ ارتقائی نفسیات میں خوداعتمادی کی گہری ضرورت کی کوئی تک نہیں بنتی۔ کروڑوں سال سے جانداروں کی بقا کا انحصار چھوٹے گروپس کا ممبر بننے پر ہے جن کا وہ حصہ رہیں اور ان پر اعتبار کر سکیں۔ تو پھر جو بات ضروری ہونے کی سمجھ آتی ہے، وہ یہ کہ دوسرے ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ ہم خود اپنے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ اس کا کیا کام؟ لئیری کی تجویز ہے کہ خوداعتمادی دراصل ایک اندرونی قطب نما ہے۔ سماجی پیمائش کا آلہ (sociometer) ہے جو اس کی مسلسل پیمائش کر رہا ہے کہ آپ کی قدر کیا ہے۔ جب اس کی پیمائش گر جاتی ہے اور الارم بج جاتا ہے اور ہمارا رویہ تبدیل ہوتا ہے۔
جب لئیری اپنی سوشیومیٹر کی تھیوری پر کام کر رہے تھے تو ان کی ملاقات ایسے لوگوں سے ہوتی تھی جو اس بات کا انکار کرتے تھے کہ انہیں اس بات سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ دوسرے ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ کیا ایسے لوگ واقعی میں موجود ہیں جو مکمل طور پر اپنے اندرونی قطب نما کی مدد سے دنیا میں زندگی بسر کرتے ہیں؟
لئیری نے ایسے لوگوں پر ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے انہوں نے طلبا کے بڑے گروپ سے اس بارے میں پوچھا کہ وہ کتنے خوداعتماد ہیں اور اس کا کتنا انحصار اس پر ہے کہ دوسرے ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ پھر انہوں نے ان کا انتخاب کیا جن کا ایک کے بعد دوسرے سوال میں یہ کہنا تھا کہ انہیں اس بات کی ذرہ سی بھی پرواہ نہں کہ دوسرے کیا رائے رکھتے ہیں۔ چند ہفتوں کے بعد ایسے طلبا کو لیبارٹری میں بلایا۔ ان کے ساتھ کچھ ایسے طلبا کو بھی جن کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات کی بہت پرواہ ہے کہ دوسرے ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
ہر ایک کو اکیلے کمرے میں بیٹھنا تھا اور اپنے بارے میں پانچ منٹ مائیکروفون پر بات کرنا تھی۔ ہر ایک منٹ کے بعد انہیں ایک نمبر دیکھنے کو ملتا تھا۔ یہ نمبر بتاتا تھا کہ ساتھ والے کمرے میں سننے والا اجنبی اس کے بعد اگلے حصے میں ان کے ساتھ ملکر کرنے میں کتنی دلچسپی رکھتا ہے۔ یہ ریٹنگ 1 سے 7 کے بیچ کا ایک نمبر تھا۔ (سات سب سے بہترین تھا)۔ اب آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اس وقت کیسا لگے گا کہ آپ بول رہے ہیں اور یہ نمبر ہر منٹ کے بعد کم ہو رہا ہے۔ 5…4…2…3…2۔  
اصل میں یہ اعداد لئیری خود ہی بنا رہے تھے۔ کچھ شرکاء کے لئے یہ کم ہو رہے تھے۔ کچھ کے لئے یہ بڑھ رہے تھے۔  4…5…6…5…6
ظاہر ہے کہ نمبر کو اس طرح بڑھتے دیکھنا خوشگوار ہے۔ لیکن کیا ایک مکمل اجنبی کی طرف سے دیا گیا نمبر آپ کے اپنے بارے میں، اپنی خوبیوں کے بارے میں اور اپنی قدر پر یقین کے بارے میں تبدیلی لا سکتا ہے؟
وہ لوگ جو اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ انہیں دوسروں کی رائے کی بہت پرواہ ہے، ان پر ان اعداد کی وجہ سے ہونے والا اثر زیادہ تھا۔ گرتے نمبروں کے ساتھ ان کا خود پر اعتماد گرتا گیا۔ اور وہ جنہیں کسی دوسرے کی رائے کی کوئی پرواہ نہیں تھی؟ ان کے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی تھا۔ ان کی راہنمائی یقینی طور پر ان کا قطب نما کرتا ہو گا لیکن جس چیز کا انہیں علم نہیں تھا، وہ یہ کہ ان کا قطب نما لوگوں کی رائے پر چلتا تھا۔
ہمارا سوشیومیٹر غیرشعوری طور پر کام کرتا ہے اور سماجی ماحول کا جائزہ لیتا رہتا ہے۔ یہ ہمارے ذہنی ہاتھی کا حصہ ہے۔
یہ اعتراف کہ ہم اس بات کی پرواہ کرتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے، ایک کمزوری لگتا ہے۔ اس وجہ سے اچھے سیاستدان کی طرح ہم اپنی کمزوری ماننے سے انکار کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اس بات کی بہت پرواہ ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔
اور یہ بڑی اچھی بات ہے۔ ایسے معلوم لوگ لوگ جن کے پاس یہ سماجی قطب نما نہیں ہوتا، سائیکوپاتھ کہلاتے ہیں۔
(جاری ہے)