Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

کینسر (85) ۔ کینسر کی کمزوریاں

کینسر کے علاج کے روایتی طریقے اس کی دو کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پہلا یہ کہ زیادہ تر کینسر کسی ایک مقام سے شروع ہوتے ہیں اور پھر یہاں سے...


کینسر کے علاج کے روایتی طریقے اس کی دو کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پہلا یہ کہ زیادہ تر کینسر کسی ایک مقام سے شروع ہوتے ہیں اور پھر یہاں سے پھیلتے ہیں۔ سرجری اور ریڈی ایشن تھراپی اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس مقامی جگہ کو جسم سے الگ کر کے یا پھر طاقتور شعاعوں سے بمباری کر کے کینسر کو پھیلنے سے پہلے مار دیا جاتا ہے۔
کینسر کی دوسری کمزوری یہ ہے کہ اس میں خلیات کے بڑھنے کی رفتار تیز ہے۔ کیموتھراپی کی اکثر ادویات اس دوسری کمزوری کو ٹارگٹ کرتی ہیں۔ امینوپٹرین فولک ایسڈ کے میٹابولزم میں خلل ڈالتی ہے اور خلیاتی تقسیم کے لئے درکار اہم جزو کو ختم کر دیتی ہے۔ نائیٹروجن مسٹرڈ اور سسپلاٹین ڈی این اے کے ساتھ ری ایکٹ کرتی ہیں اور ایسے خلیات اپنی جین کی کاپی نہیں بنا سکتے اور تقسیم نہیں ہو پاتے۔ ونکرسٹین خلیاتی تقسیم کے وقت بننے والے مالیکیولر ڈھانچے پر حملہ آور ہو کر یہ عمل روکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ دونوں کمزوریاں (مقامی گروتھ اور تیز خلیاتی تقسیم) ایک حد تک ہی ٹارگٹ کی جا سکتی ہیں۔ سرجری اور ریڈی ایشن اس وقت ناکام ہو جاتی ہے جب کینسر کے خلیات ایک حد سے زیادہ پھیل چکے ہوں۔
خلیاتی بڑھوتری کو ٹارگٹ کرنے کی حد اس لئے آ جاتی ہے کہ عام خلیات نے بھی بڑھنا ہے۔ بڑھنا کینسر کی خاصیت ہے لیکن یہ زندگی کی خاصیت بھی ہے۔ جس زہر سے اس کو نشانہ بنایا جائے وہ نارمل خلیات کو بھی نشانہ بناتا ہے اور وہ اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ بال گر جاتے ہیں۔  خون بگڑ جاتا ہے۔ جلد اور آنتوں کی لائننگ جھڑ جاتی ہے۔
اور جیسا کہ سرجن اور کیموتھراپسٹ سیکھ چکے تھے کہ ایک حد سے زیادہ جارحانہ علاج موثر نہیں، مضر ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئی تھراپی کے لئے کینسر کی مزید کمزوریوں کو نشانہ بنانا تھا۔ کینسر بائیولوجی کی دریافتوں نے اس سمت کو ممکن بنایا۔ تین نئے اصول ابھرے جو کینسر کی تین کمزوریوں کی بنا پر تھے۔
پہلا یہ کہ کینسر کے خلیات اس وجہ سے بڑھتے ہیں کہ یہ ڈی این اے میں ضرر اکٹھا کر چکے ہوتے ہیں۔ اونکوجین کا فعال ہونا اور ٹیومر سپریسر جین کا غیرفعال ہونا کینسر کے خلیے کا نشان ہے۔ ان جینز کو حدف بنانا ایک نیا طریقہ ہو سکتا ہے جو نارمل خلیات کو چھوڑ دے۔
دوسري یہ کہ یہ جین عام طور پر خلیاتی سگنلنگ کے پاتھ وے کے مرکز پر ہوتے ہیں۔ عام خلیات میں بھی یہ پاتھ وے ہیں لیکن بہت ٹائٹ ریگولیشن کے ساتھ ہیں۔ کینسر کے خلیات کا انحصار اس پر ہے کہ یہ پاتھ وے مستقل طور پر فعال ہوں گے۔ یہ کینسر کی دوسری کمزوری ہے۔
تیسرا یہ کہ میوٹیشن، سلیکشن اور سروائیول کے مسلسل جاری سائیکل کے باعث کینسر کا خلیہ اضافہ خاصیتیں اپنا چکا ہوتا ہے۔ اس میں موت کے سگنل کو نظرانداز کرنے کی خاصیت، میٹاسٹائز ہونے کی صلاحیت اور خون کی رگیں بڑھانے کی صلاحیت ہیں۔ یہ صلاحیتیں کینسر کا خلیہ ایجاد نہیں کرتا بلکہ نارمل خلیات کی فزیولوجی کو بگاڑ کر لی جاتی ہیں۔ اور ان خاصیتوں کو نشانہ بنانا کینسر کی تیسری کمزوری ہے۔
نئی کینسر ادویات کا چیلنج جین، پاتھ وے اور حاصل کردہ خاصیتوں کو نشانہ بنانے کی اہلیت ہے۔ تا کہ کینسر پر کاری وار کیا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمزوری تلاش کر لینا ایک معاملہ ہے جبکہ ایسا ہتھیار بنا لینا جو اس کو نشانہ بنا سکے، بالکل الگ۔  1980 کی دہائی کے آخر تک ایسی کوئی دوا نہیں تھی جو ایسا کر سکے۔ پہلی ایسی دریافت ہونے والی دوا اونکوجین کو ٹارگٹ کرتی تھی۔ یہ اتفاق سے ملنے والی دوا تھی۔ ایسے مالیکیول کا وجود جو ایسا کر سکے، ایک بڑی دریافت تھا اور اس کی وجہ سے اگلی دہائی میں ایسے مزید مالیکیول تلاش کرنے کا کام بڑے پیمانے پر شروع ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بیماری اکیوٹ پرومائیلوسائٹک لیوکیمیا (APL) تھی۔
(جاری ہے)