Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

کینسر (84) ۔ ابال

نئی مریضہ ایک ادھیڑ عمر خاتون تھیں۔ وہ تاریخ کی پروفیسر تھیں جن کا ذہن خوب کام کرتا تھا۔ ان کی سانس کی نالی کے خلیات بے قابو ہو کر بڑھ رہے ت...


نئی مریضہ ایک ادھیڑ عمر خاتون تھیں۔ وہ تاریخ کی پروفیسر تھیں جن کا ذہن خوب کام کرتا تھا۔ ان کی سانس کی نالی کے خلیات بے قابو ہو کر بڑھ رہے تھے۔ یہ برنکوایلویولر کینسر تھا۔ اونکولوجسٹ ان کو بڑی مہارت سے کینسر، اس کے علاج اور آنے والے وقت کی تفصیلات سے آگاہ کر رہے تھے۔ ان کے ٹیومر کا بتا رہے تھے۔ یہ کیسے میٹاسٹیسائز ہو گا۔ کیموتھراپی کی جائے گی جس میں کاربوپلاٹن اور ٹیکسول استعمال ہوں گی۔ اس کے ساتھ ریڈی ایشن تھراپی بھی ہو گی۔ اس سے امید ہے کہ یہ دوسرے اعضا کی طرف رخ کرنے سے پہلے مارے جائیں گے۔ اور بہترین صورت یہ ہو گی کہ میوٹیشن والی جین کے خلیات باقی نہیں رہیں گے اور ان کا کینسر ختم ہو جائے گا۔ مریضہ 2005 میں ماس جنرل کلینک میں داخل ہوئی تھیں۔ ان کے اونکولوجسٹ ڈاکٹر ٹام لنچ تھے۔ کینسر جینیات، کارسنوجینسس اور کیموتھراپی بیان کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اونکولوجسٹ کی وضاحت منطقی تھی اور باربط تھی۔ لیکن مریضہ نے ان کی منطق کی ٹوٹی زنجیر کو پہچان لیا تھا۔ اور اسی پر سوال کیا۔
کینسر کی وضاحت اور کینسر کی تھراپی کے درمیان تعلق کیا تھا؟ وہ جاننا چاہتی تھیں کہ کاربوپلاٹن ان کی جین میوٹیشن کو ٹھیک کیسے کر دے گی؟ ٹیکسول کو کیسے معلوم ہو گا کہ کونسے خلیات میں میوٹیشن ہے اور انہی کو مارے؟ ان کی بیماری کی میکانکی وضاحت کا میڈیکل مداخلت سے کیسے جوڑ بنتا ہے؟
مریضہ کے سوالات وہی تھی جن سے اونکولوجسٹ واقف تھے۔ ایک طرف عملی میڈیسن جبکہ دوسری طرف کینسر کی اپنی بائیولوجی وضاحت۔۔۔۔ ان میں خلیج بڑھ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینسر کے خلاف ہونے والی فتوحات معنی خیز تھیں اور بڑی تھیں۔ اور یہ دہائیوں کی محنت کا نتیجہ تھیں لیکن حقیقت میں یہ کامیابیاں ایک نسل پہلے کی تھیں۔ یہ پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں کی سائنس کی بنا پر تھیں۔ علاج کے لئے تصوراتی فریم ورک اور حکمت عملیاں کینسر سیل بائیولوجی کے جدید علم کی بنیاد پر نہیں بنی تھیں۔ سائنسدانوں نے بڑی دریافتیں کی تھیں۔ خراب ہونے والے اونکوجین اور ٹیومر سپریسر۔ کروموزوم، جو کٹ جاتے تھے یا غلط جگہ جا ملتے تھے۔ خلیاتی پاتھ وے جو کرپٹ ہو کر کینسر کی موت میں رکاوٹ بن جاتے تھے۔ لیکن یہ سب علم کینسر کے علاج میں شامل نہیں ہوا تھا۔ ہمارے ایک ہاتھ میں نئی سائنس تھی۔ دوسرے میں پرانی میڈیسن۔
کینسر جینیات کے ماہر ایڈ ہارلو نے اس پر کہا، “کینسر میں ہونے والی مالیکیولر خرابیوں کا علم بہت بہترین مالیکیولر بائیولوجی ریسرچ سے حاصل ہوا ہے۔ لیکن اس کو کسی موثر علاج کے لئے کام میں نہیں لایا جا سکا۔ نہ ہی یہ علم ہو سکا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ کئی بار ہمارا موجودہ علاج کام کرتا ہے جبکہ کئی بار نہیں۔ یہ مایوس کن وقت ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویناور بش نے امریکی صدر روزویلٹ کو 1945 میں لکھا تھا۔
“جنگ کے دوران میڈیسن میں ہونے والی ترقی صرف اس وجہ سے ممکن ہوئی تھی کہ ہمارے پاس سائنسی ڈیٹا موجود تھا جو سائنس کے کئی شعبوں میں ہونے والی بنیادی ریسرچ سے جمع ہوا تھا اور اس جنگ سے کئی برسوں پہلے کا تھا”۔
کینسر کے لئے سائنسی ڈیٹا کا ذخیرہ بڑھ رہا تھا اور ابال پر پہنچ رہا تھا۔ اس کی بھاپ اب کینسر میڈیسن کی نئی اقسام کا انجن چلانا ممکن کر سکتی تھی۔
آنے والے برسوں میں یہ عملی میڈیسن کی طرف آنے لگا تھا۔
(جاری ہے)