اطالوی ادیب پرائمو لیوی دوسری جنگِ عظیم کے بیگار کیمپ میں سے بچ جانے والے خوش نصبیوں میں سے تھے۔ وہ اپنے تجربے کا لکھتے ہیں۔ “وقت کے ساتھ سا...
اطالوی ادیب پرائمو لیوی دوسری جنگِ عظیم کے بیگار کیمپ میں سے بچ جانے والے خوش نصبیوں میں سے تھے۔ وہ اپنے تجربے کا لکھتے ہیں۔ “وقت کے ساتھ ساتھ ایک شخص کا ماضی اور اس کی زندگی مٹ جاتی ہے۔ اس کیمپ میں رہنا تاریخ، شناخت اور شخصیت کو مٹا دیتا ہے۔ لیکن جو بات سب سے خوفناک ہے، وہ مستقبل کا مٹ جانا ہے۔ شخصیت کی موت کے ساتھ اخلاقی اور روحانی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔ اگر کیمپ کے باہر کوئی زندگی نہیں تو اس مسخ شدہ منطق کے مطابق، جو کچھ کیمپ کے اندر ہے، وہی نارمل ہو جاتا ہے۔ بس، یہی مکمل زندگی بن جاتی ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینسر بیگار کیمپ نہیں لیکن کچھ ایسی خاصیتیں رکھتا ہے۔ یہ زندگی کا مرکز بن جاتا ہے۔ اس سے باہر کی زندگی مٹ جاتی ہے۔ موت سے بہت پہلے ہی یہ زندگی چوس چکا ہوتا ہے۔ مریض کا روزانہ معمول بیماری اس قدر جکڑ لیتی ہے کہ اس کے سوا باقی دنیا ماند پڑ جاتی ہے۔ جسمانی اور ذہنی توانائی کا آخرہ قطرہ بھی اس پر صرف ہو جاتا ہے۔ شاعر جیسن شنڈر نے اس پر لکھا ہے کہ “کینسر ایسا ہے جیسے آپ کا چہرہ شیشے کے ساتھ دبا دیا گیا ہو اور اس شیشے میں آپ کو جو دکھائی دے رہا ہو، وہ کینسر کے باہر کی دنیا نہیں بلکہ وہ دنیا ہے جس پر یہ قبضہ کر چکا ہے۔ یہ آئینوں کا کمرہ ہے جس میں ہر سمت یہی نظر آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینسر کا شکار ہونے والے تھامس وولف اپنے خط میں لکھتے ہیں۔ “میں نے لمبا سفر کیا اور یہ عجیب ہی ملک تھا۔ میں نے تاریکی کو قریب سے دیکھ لیا ہے۔
لیکن کینسر صرف یہی نہیں۔ ایک اونکولوجسٹ کی پیشہ ورانہ زندگی کا بہترین لمحہ وہ ہوتا ہے جب وہ اس سفر کو الٹا ہوتا دیکھ لے۔
اس عجیب ملک سے لوٹنے والے کی آنکھ کی چمک۔ تاریک لینے والوں کی واپسی۔ اس سے شفایاب ہو جانا اب معجزہ نہیں رہا۔ یہ یہ اب معمول کی بات ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انقلاب اکثر یکدم آتے ہیں لیکن کئی بار رفتہ رفتہ ہونے والی تبدیلیاں بھی غیرمحسوس طریقے سے انقلاب بن جاتی ہیں۔
یہ 2005 تھا جب سائنسی لٹریچر میں یکے بعد دیگرے آنے والے پیپر ایسا ہی بتا رہے تھے۔ کینسر سے مقابلے کی نوعیت بنیادی طور پر بدل چکی تھی۔
تقریباً ہر قسم کے بڑے کینسر ۔۔۔ چھاتی، پھیپھڑے، بڑی آنت، پراسٹیٹ ۔۔۔ سے شرحِ اموات پندرہ سال سے مسلسل گر رہی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ کوئی ایک ڈرامائی موڑ آیا تھا، لیکن یہ مستقل ہونے والی طاقتور تبدیلی تھی۔ اوسطاً ہر سال ایک فیصد کمی ہوئی تھی۔ یہ عدد کم لگے لیکن اس کا اثر ہر سال تھا۔ 1990 سے 2005 کے درمیان پندرہ فیصد کمی ہو جانا معمولی نہیں۔ اس بیماری کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔
کینسر کی سلطنت وسیع ہے۔ ہر سال لاکھوں زندگیاں ہڑپ کر جاتی ہے لیکن اس کا مضبوط شکنجہ ڈھیلا پڑ رہا تھا۔ اس کو اپنی سرحدوں سے پیچھے دھکیلا جا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی وجہ کیا تھی؟ اس کا کوئی ایک جواب نہیں، بہت سے ہیں۔ پھیپھڑے کے کینسر کی تنزلی کی بڑی وجہ بچاوٗ ہے۔ سگریٹ نوشی اور کینسر کے تعلق کے دریافت ہو جانے کے بعد یہ ممکن ہوا کہ اس کے خلاف باقاعدہ تحریک چلائی جا سکے۔ اقدامات لئے جا سکیں۔ وارننگ لیبل، قوانین، ڈاکٹروں کی ہدایات، آگاہی کی مہم اور اس کے مہلک ہونے کی مارکٹنگ۔ پھیپھڑے کے کینسر کے خلاف یہ موثر ترین ہتھیار رہے۔
بڑی آنت کے کینسر کی وجہ کینسر سکریننگ تھی۔ اس کا اپنی ابتدائی سٹیج پر جلد پکڑ لئے جانا اور چھوٹی سرجری سے اس کو ٹھیک کر لئے جانا ممکن ہوا۔ سرویکل کینسر کا مقابلہ پیپ سمئیر سے پکڑے جانے نے کیا۔
جبکہ دوسری طرف، لیوکیمیا، لمفوما اور خصیوں کے کینسر سے گھٹتی اموات کیموتھراپی کی کامیابی کی عکاس تھیں۔ بچوں کے اکیوٹ لیوکیمیا میں کامیابی کا تناسب 80 فیصد ہے۔ ہوجکن کے ساتھ بھی ایسا ہے اور بڑے خلیات کے جارحانہ لمفوما میں بھی۔
ان بیماریوں میں اب سوال یہ نہیں کہ کتنی کیموتھراپی مزید دی جائے بلکہ یہ کہ کتنی کم دینے سے کام چل سکتا ہے۔ اس پر ٹرائل چلائے جا رہے تھے جس میں زہریلی ادویات کی مقدار کم کی جا رہی ہے۔
چھاتی کا کینسر ایک اور بڑی کامیابی تھی۔ اس میں شرحِ اموات میں چوبیس فیصد کمی ہوئی۔ اس کی تین ممکنہ وجوہات ہو سکتی تھیں۔ میموگرافی سے کینسر ابتدا میں پکڑ لئے جانا، سرجری یا اضافی کیموتھراپی (جو سرجری کے بعد دی جاتی ہے)۔ ہیوسٹن کے ماہرِ شماریات ڈونلڈ بیری نے اس سوال کا پتا لگانے پر تحقیق کی کہ اس کینسر کا پیچھے جانا آخر کس کی فتح ہے؟ کیموتھراپی کی یا پھر میموگرافی کی؟
بیری کے شماریاتی ماڈلوں نے جو جواب نکالا، وہ دونوں گروپس کے لئے تسلی بخش تھا۔ اس میں دونوں کا حصہ برابر تھا۔ بارہ فیصد کمی میموگرافی کی وجہ سے ہوئی اور بارہ فیصد کمیوتھراپی کی وجہ سے۔ جیسا کہ بیری نے کہا۔
“کسی کی بھی محنت رائیگاں نہیں گئی تھی”۔
(جاری ہے)