برٹ ووگلسٹائن ایک میوٹیشن سے اگلی تک کینسر کے سست رفتار مارچ کا بتا رہے تھے جبکہ کینسر بائیولوجسٹ ان میوٹیشن کے فنکشن کی تفتیش کر رہے تھے۔ ا...
برٹ ووگلسٹائن ایک میوٹیشن سے اگلی تک کینسر کے سست رفتار مارچ کا بتا رہے تھے جبکہ کینسر بائیولوجسٹ ان میوٹیشن کے فنکشن کی تفتیش کر رہے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ میوٹیشن دو اقسام کی ہیں۔ یا تو اونکوجین فعال ہو جاتی ہیں یا پھر ٹیومر سپریسر جین غیرفعال ہو جاتی ہیں۔ ان کی وجہ سے ہونے والی بے قابو خلیاتی تقسیم کینسر ہے لیکن کینسر اتنا سادہ نہیں۔
کینسر جسم میں متحرک ہوتا ہے، ٹشو تباہ کرتا ہے، ایک جگہ سے دوسری میں منتقل ہوتا ہے۔ اعضاء پر حملہ کرتا ہے۔ دور دراز کی جگہوں پر گھر بناتا ہے۔ کینسر کی بیماری کو ٹھیک طریقے سے سمجھنے کے لئے بائیولوجسٹ کو کینسر کے خلیے کی جین میوٹیشن کو ان خلیات کے پیچیدہ اور کئی جہات والے رویے کو آپس میں لنک کرنے کی ضرورت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جین پروٹین کا کوڈ رکھتے ہیں اور پروٹین کئی بار ننھے سوئچ کا کام کرتے ہیں۔ دوسرے پروٹین کو فعال یا غیرفعال کرتے ہیں۔ پروٹین الف پروٹین ب کو آن کرے گا۔ جو کہ ج کو آن اور د کو آف کرے گا، جس سے ر آن ہو جائے گا۔ اس مالیکیولر آبشار کو پروٹین کا سگنلنگ پاتھ وے کہا جاتا ہے۔ اور ایسے پاتھ وے خلیاتے میں مسلسل متحرک ہیں۔ سگنل آتے ہیں اور جاتے ہیں اور خلیہ ماحول کے حساب سے اپنا فنکشن کرتا رہتا ہے۔
کینسر بائیولوجسٹ نے دریافت کیا کہ پروٹواونکو جین اور ٹیومر سپریسر جین وہ ہیں جو ان سگنلنگ پاتھ وے کے مرکز میں بیٹھے ہوتے ہیں اور ان میں کلیدی کردار رکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر، راس ایک پروٹین کو فعال کرتی ہے جو میک ہے۔ میک ارک کو فعال کر دیتی ہے۔ اور اس کے بعد کئی اقدام لئے جاتے ہیں جس سے خلیے کی تقسیم کی رفتار میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ سٹیپ راس میک ارک پاتھ وے کہلاتے ہیں۔ اور نارمل خلیات میں ان کی بڑی ٹائٹ طریقے سے ریگولیشن ہوتی ہے۔ کینسر کے خلیے میں راس کا مسلسل آن رہنا میک کو اور میک کا آن رہنا ارک کو آن رکھتا ہے۔ یہ پیتھولوجیکل مائیٹوسس کی وجہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ فعال پاتھ وے (راس سے میک سے ارک) صرف خلیاتی تقسیم کو ہی تیز نہیں کرتا بلکہ یہ دوسرے پاتھ وے میں بھی مداخلت کرتا ہے اور کینسر کے خلیات میں کئی دیگر افعال بھی چھڑ جاتے ہیں۔ 1990 کی دہائی میں بوسٹن میں بچوں کے کینسر ہسپتال میں جوڈا فوکمین نے دکھایا کہ کینسر کے خلیے میں کچھ خاص متحرک سگنلنگ پاتھ وے (جن میں راس بھی ہے) اس بات کو ممکن بناتے ہیں کہ قریب میں خون کی رگیں بڑھنے لگیں۔ اور اس طرح ٹیومر خون کی اپنی سپلائی کا بندوبست کرنے لگتا ہے۔ اس کے گرد خون کی رگوں کا جال بننے لگتا ہے اور پھر بڑھنے لگتا ہے۔ فوکمین نے اس کو ٹیومر انجیو جینیسس کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہارورڈ کے سائنسدان سٹان کورسمائیر نے دوسرے پاتھ وے تلاش کئے جن کی ابتدا میوٹیٹ ہونے والی ان جین سے ہوتی تھی۔ یہ پاتھ وے خلیے کی موت کا راستہ روکتے تھے۔ اس کی وجہ سے کینسر خلیات موت سے مزاحمت کرنے کی صلاحیت پا لیتے ہیں۔
اسی طرح دوسرے پاتھ وے ہیں جو کینسر کے خلیات کو حرکت دینے کی اہلیت دیتے ہیں۔ یہ ایک ٹشو سے دوسرے میں منتقل ہونے یا میٹاسٹیسس کی صلاحیت ہے۔
کئی دوسری جینیاتی جھرنے خلیے کے مشکل مقامات پر زندہ رہنے کو تقویت دیتے ہیں۔ اور اس طرح ان کا خون کے ذریعے دوسرے اعضاء تک پہنچ کر حملہ آور ہو جانا ممکن ہوتا ہے۔ غلط جگہ پر پہنچ جانے کی صورت میں ان کے مسترد ہو جانے اور تباہ ہو جانے کا فنکشن ختم ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مختصر یہ کہ کینسر صرف اپنی شروعات کے حساب سے ہی جینیاتی نہیں، یہ مکمل طور پر جینیاتی ہی ہے۔ میوٹیشن کی مدد سے بقا کی بڑھی ہوئی صلاحیت، بڑھنے کی صلاحیت، حرکت کی صلاحیت، خون کی سپلائی لے لینے کی صلاحیت جس سے غذا اور آکسیجن اپنی طرف منتقل ہو جائے۔ یہ کینسر کی زندگی ہے۔
اہم بات یہ کہ یہ فعال جینیاتی آبشاریں وہی ہیں جن کو جسم مخصوص حالات میں استعمال کرتا ہے۔ حرکت کے لئے فعال ہو جانے والے جین وہی ہیں جن کو نارمل خلیات حرکت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب امیون سسٹم کے خلیات کو انفیکشن والی جگہ تک پہنچنا ہوتا ہے تو ان کی یہی تکنیک ہے۔ ٹیومر انجیوسس خون کی رگوں کو اپنی طرف منتقل کرنے کے لئے انہی پاتھ وے کا فائدہ اٹھاتا ہے جو زخم مندمل کرنے کے لئے کام آتی ہیں۔
کچھ بھی نئی ایجاد نہیں، کچھ بھی جسم کے باہر سے نہیں۔ کینسر کی زندگی جسم کی زندگی کی ہی نئی طرح سے تنظیم ہے۔ اور یہ ہمارا اپنا ہی عکس ہے۔
سوسان سونٹاگ خبردار کرتی ہیں کہ کسی بیماری کو بیان کرنے کے لئے استعارات کا زیادہ استعمال نہیں کرنا چاہیے لیکن یہ استعارہ نہیں۔ اپنی آخری مالیکیولر کور تک ۔۔۔ کینسر کے خلیات حد سے زیادہ متحرک، بقا حاصل کرنے کے ماہر، بگڑی اور بڑھنے والی ۔۔۔ ہماری اپنی ہی کاپیاں ہیں۔
(جاری ہے)