راس جین کی دریافت سے کینسر جینیات کے ماہرین کے لئے ایک چیلنج حل ہو گیا۔ انہوں نے اونکوجین کی میوٹیشن کو کینسر کے خلیے میں تلاش کر لیا تھا۔ ل...
راس جین کی دریافت سے کینسر جینیات کے ماہرین کے لئے ایک چیلنج حل ہو گیا۔ انہوں نے اونکوجین کی میوٹیشن کو کینسر کے خلیے میں تلاش کر لیا تھا۔ لیکن ایک اور چیلنج کھل گیا۔ نڈسن کی ٹو ہٹ تھیوری بھی ایک پیشگوئی کرتی تھی۔ اور وہ یہ کہ ریٹنوبلاسٹوما کینسر کے خلیے میں آر بی جین کی دو غیرفعال کاپیاں ہوں گی۔ وائن برگ، بارباسڈ اور وگلر نے وارمس اور بشپ کے خیال کی تصدیق تو کر دی تھی۔ اب کسی نے جانچنا تھا کہ کیا اینٹی اونکوجین (ٹیومر سپریسر جین) بھی اسی طرح ہی موجود تھیں جو نڈسن کی تھیوری کی پیشگوئی تھی؟
اس چیلنج میں ایک تصوراتی گھماوٗ تھا۔ اونکوجین خرابی کی صورت میں خلیات کو آن کا سگنل دیتی تھیں جبکہ اینٹی اونکو جین آف کا سگنل غائب کر دیتی تھیں۔ موجود کی تصدیق تو ہو گئی تھی۔ اب غیرموجود کی تصدیق کیسے کی جائے؟
جینٹ رولے نے یہ تو معلوم کر لیا تھا کہ مطلوبہ آر بی جین کروموزوم نمبر تیرہ پر ہے لیکن ہزاروں جین کی اس سیٹ سے ایک کو الگ کرنا؟ اور اس وقت جب یہ اپنا اظہار کرتی ہی اس وقت ہو جب غیرفعال ہو؟ یہ ناممکن لگتا تھا۔ وائن برگ کا کہنا تھا، “ہمیں یہ معلوم تھا کہ یہ جین رہتی کہاں پر ہے لیکن اس کا کچھ پتا نہیں تھا کہ یہ کرتی کیا ہے؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دریائے چارلس کی دوسری طرف ماہرِ چشم اور جینیات ڈرائیجا نے اس جین (Rb) کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ اور چند اہم مفروضات لئے۔
اگر نڈسن کی ٹو ہِٹ تھیوری درست تھی تو آنکھ کے ہر ٹیومر میں دونوں کروموزوم میں اس کے غیرفعال ہونے کی میوٹیشن ہونی چاہیے تھی۔ یہ میوٹیشن دونوں جگہ پر آزادانہ ہوئی ہے تو پھر دونوں کروموزوم میں وہی علاقہ غائب ہونا چاہیے جہاں پر جین پائی جاتی ہے۔ جین کی غیرموجودگی کے لئے سٹرکچر کی غیرموجودگی دیکھنے سے کام بن جائے گا۔
ڈرائیجا کی تلاش ایک بڑا کام تھا لیکن عام محققین کے برعکس وہ ایک پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر تھے اور ان کے پاس ٹیومر کے ٹشو کی بڑی کلکشن فریزر میں موجود تھی۔
انہوں نے سیمپل لے کر کروموزوم تیرہ میں تابکار ڈی این اے پروب بھیجنا شروع کئے (اسی تکنیک سے جو وارنس اور بشپ نے استعمال کی)۔ اگر پروب کا ٹکڑا کہیں نہیں چپکے گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈی این اے میں وہ حصہ موجود نہیں۔
ہفتوں پر ہفتے گزرتے رہے۔ تجربہ بڑھتا رہا۔ آخر ایک ٹیومر پر ان کا پروب یہ پکڑ لایا کہ کینسر کے خلیے کے دونوں کروموزوم پر بالکل ایک ہی سٹرکچر غیرموجود ہے۔
“یہ دریافت کا لمحہ تھا۔ اس وقت مجھے یہ احساس ہو گیا تھا کہ یہ جین ہمارے ہاتھ میں ہے۔ میں نے ریٹینوبلاسٹوما کو پکڑ لیا تھا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈرائیجا کو اب ڈی این اے کے اس گمشدہ ٹکڑے کو نارمل خلیے میں ڈھونڈنا تھا۔ یہ ان کی مہارت کا شعبہ نہیں تھا اور ان کے پاس وسائل بھی محدود تھے۔
یہ مہارت دریا کی دوسری طرف وائن برگ کے لیبارٹری میں پائی جاتی تھی۔ ڈرائیجا نے اپنا پروب اٹھایا اور وائن برگ کی لیبارٹری میں چلے گئے۔ یہاں پر مالیکیولر جینیات کے ماہر سٹیو فرینڈ اس پر کام کر رہے تھے۔ ان کے اشتراک نے یہ معاملہ طے کر دیا۔ نڈسن کی تھیوری درست تھی۔ تمام ریٹینوبلاسٹوما خلیات میں دونوں کروموزومز میں یہ جین غیرفعال تھی۔ نارمل خلیے پر ایک ہی جگہ پر ہونے والی میوٹیشن کی دو ضربیں لگی تھیں جنہوں نے اس کو کینسر کا خلیہ بنا دیا تھا۔
اکتوبر 1986 کو فرینڈ، وائن برگ اور ڈرائیجا نے اپنی تحقیق نیچر میں شائع کی۔ اونکوجین کے بعد اب اینٹی اونکوجین کی شناخت ہو چکی تھی۔
ریٹینوبلاسٹوما جین نارمل خلیے میں کیا فنکشن کرتی ہے؟ اسے ہم ابھی بھی مزید جان رہے ہیں۔ جیسا کہ بعد میں علم ہوا کہ پھیپھڑے، ہڈی، سانس کی نالی، چھاتی اور بلیڈر کے کینسر میں بھی اس میں میوٹیشن ہوتی ہے۔
یہ ایک پروٹین بناتی ہے جس کا فنکشن کئی دوسری پروٹین کے ساتھ چپک کر ان کو خلیاتی تقسیم سے روکنا ہے۔ یہ اس عمل میں چوکیدار کا کام کرتی ہے۔ جب یہ پروٹین گیٹ کھولتی ہے تو خلیاتی تقسیم شروع ہوتی ہے۔ جب یہ مکمل ہو جاتی ہے تو یہ اس گیٹ کو بند کر دیتی ہے۔ اگر یہ غیرفعال ہو جائے تو یہ فنکشن ختم ہو جاتا ہے۔ گیٹ کھلا رہ جاتا ہے اور خلیہ تقسیم کا فنکشن بند نہیں کرتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راس اور ریٹینوبلاسٹوما جین کے کلون ہو جانا ایک بڑا سنگِ میل تھا۔ 1993 تک کئی دوسری اونکوجین اور اینٹی اونکوجین دریافت ہو چکی تھیں۔ ریٹرووائرس کو دی جانے والی توجہ ماند پڑ چکی تھی۔ کینسر کی پیدایش کا تصوراتی فریم ورک واضح ہوتا جا رہا تھا۔ کینسر کا خلیہ ایک خراب مشین تھی جو کنٹرول سے باہر ہو گئی تھی۔ اس کو پھنس جانے والے ایکسلریٹر اور خراب ہو جانے والی بریک کی نظر سے سمجھا جانے لگا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت تحقیق کی ایک اور لائن بارآور ہونے لگی تھی۔ ماہرینِ جینیات یہ جان رہے تھے کہ کئی قسم کے کینسر خاندانوں میں پائے جاتے ہیں۔ بڑی آنت اور اووری کا ایک خاندان میں۔ چھاتی اور اووری کا دوسرے خاندان میں۔ سارکوما، لیوکیمیا اور گلیوما تیسرے میں۔ اور ان کے خاص طرح کے پیٹرن بنتے ہیں۔
طاقتور مالیکیولر جینیاتی تکنیک سے ایسے جین شناخت ہو رہے تھے جن کا اس سے تعلق تھا۔
ایک سوال رہ گیا تھا۔ کسی بیماری کی “وجہ” کا ٹیسٹ پاس کرنے کے لئے کینسر کی جاندار میں منتقلی کا ٹیسٹ باقی رہ گیا تھا۔
یہ ٹرانس جینک ٹیکنالوجی سے ممکن ہوا۔ 1984 میں سٹیم سیل ٹیکنالوجی پر کام کرنے والی ٹیم نے طریقہ نکال لیا تھا کہ چوہوں کی پیدائش کے وقت ان کو جین منتقل کی جا سکیں۔
کینسر جینیات کے ماہرین نے اس ٹیکنالوجی کو پکڑ لیا۔ ہارورڈ میں فلپ لیڈر کی ٹیم نے ایک جین کے ساتھ ایسا تجربہ کیا۔ ایک جارحانہ اونکوجین ان کے کروموزوم میں ڈال دی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیڈر کو توقع تھی کہ ٹرانس جینک چوہوں میں کینسر پھٹ پڑے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ معمولی نوعیت کے کینسر نمودار ہوئے۔ یہ بتاتے تھے کہ صرف جینیات ہی نہیں بلکہ ماحولیاتی اثرات بھی کام کرتے ہیں۔ ہارمون کی سطح کا اثر ہوتا ہے کہ کینسر کی نوعیت کیا ہو گی۔ لیڈر نے لکھا، “اگر جینیات واحد فیکٹر ہوتا تو تمام چوہوں کو ایک ہی جتنے ٹیومر ہوتے۔ لیکن ہمارے نتائج بتاتے ہیں کہ اضافی فیکٹر بھی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیڈر نے اس تجربے کو جاری رکھا اور دوسری طرح کا چوہا تیار کیا۔ اس میں دو پروٹواونکو جین فعال تھیں۔ چند مہینوں میں ان چوہوں میں ٹیومر بن گئے۔ ہر چوہے میں کئی ملین خلیات میں یہ جینیاتی نقائص پہنچے۔ یہ طاقتور اونکوجین تھیں۔ لیکن ان میں سے چند درجن ہی اصل جیتے جاگتے ٹیومر میں تبدیل ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ تجربہ اہم سنگِ میل تھا۔ ایک جانور میں مصنوعی طور پر کینسر پہنچایا گیا تھا۔ ایک سرحد پار کر لی گئی تھی۔ یہ لیبارٹری کے مصنوعی نہیں بلکہ اصل جاندار کے اصل ٹیومر تھے۔ پیٹن روس طویل عرصے تک کہتے رہے تھے کہ کسی جاندار کی جین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے کینسر پیدا نہیں کیا گیا اور نہ ہی جا سکتا ہے۔ اس تجربے کے بعد یہ اعتراض ختم ہو گیا تھا۔ کینسر کی وجہ طے ہو گئی تھی۔ تصدیق مکمل ہو گئی تھی۔
لیکن ساتھ ہی ساتھ اس نے نئے سوالات بھی پیدا کر دئے تھے۔
ایک پہاڑ عبور ہو گیا تھا۔ اب اگلے پہاڑ تھے۔
(جاری ہے)