Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

کینسر (77) ۔ راس جین

رابرٹ وائن برگ نے کینسر کی پیدائش کا مکینزم ڈھونڈنا تھا اور ان کا پہلا چیلنج تکنیکی تھا۔ کینسر کے خلیے کے ڈی این اے کو نارمل خلیات میں داخل ...


رابرٹ وائن برگ نے کینسر کی پیدائش کا مکینزم ڈھونڈنا تھا اور ان کا پہلا چیلنج تکنیکی تھا۔ کینسر کے خلیے کے ڈی این اے کو نارمل خلیات میں داخل کیسے کیا جائے؟ خوش قسمتی سے یہ وہ تکنیکی مہارت تھی جس کی مشق انہوں نے پچھلے دس برس میں کی تھی۔ ان کا طریقہ یہ تھا کہ سب سے پہلے کینسر کے خلیے سے ڈی این اے کو حاصل کیا جائے۔ کئی گرام اس طرح لے کر کثیف مائع بن جاتی تھی۔ اس کے ہزاروں ٹکڑے کئے جائیں۔ ہر ٹکڑے میں ایک یا دو جین ہوں گے۔ اس کے بعد انہیں ایک سواری کی ضرورت تھی۔ ایسا مالیکیول جو ڈی این اے کو خلیے کے اندر تک لے جائے۔ یہاں پر وائن برگ نے ایک چالاک طریقہ استعمال کیا۔ ڈی این اے کیلشیم فاسفیٹ سے چپک جاتا تھا اور ننھے سفید ذرات جاتے تھے۔ خلیات اس کو نگل لیتے تھے اور جب اسے نگلتے تھے تو ساتھ ہی اس سے چپکا ہوا ڈی این اے کا ٹکڑا بھی خلیے میں داخل ہو جاتا تھا۔ ایسے خلیات بڑھتے بڑھتے ڈش میں ایک سفید تہہ بن جاتے تھے۔ اور اس کے بعد ایک سادہ تجربہ تھا۔ وہ خلیہ جس کو اونکوجین ملی ہو، وہ تیزرفتار بڑھوتری شروع کر دیتا تھا۔ وائن برگ اس کو الگ کر سکتے تھے اور یوں انسانی اونکوجین پہچانی جا سکتی تھی۔ (یہ وہ خیال تھا جو برف کے طوفان میں چلتے وقت انہیں سوجھا تھا)۔
 کیلشم فاسفیٹ کے ذرات کو سواری کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ڈی این اے کے ٹکڑوں کو خلیات میں داخل کر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے گریجویٹ سٹوڈنٹ چیاہو شیح 1979 نے ایک ابتدائی اہم کامیابی حاصل کر لی۔ یہ چوہوں کے کینسر خلیات پر کی گئی تھی۔ اور ان کے عام خلیات کو کینسرزدہ کر دیا تھا۔
تکنیک اور انواع بدلتے ہوئے وائن برگ اور شیح انسانی کینسر کے خلیات تک آ گئے۔
ارل جینسن بلیڈر کینسر سے فوت ہوئے تھے۔ ان سے حاصل شدہ کینسر کے خلیات کی لائن کو ڈی این اے تجربات کے لئے استعمال کیا جا رہا تھا۔ اب مقصد ان کینسرزدہ خلیات میں سے وہ جین تلاش کرنا تھا جو کینسر کا موجب (اونکوجین) تھی۔
شیح ان میں سے پریسائز جین تلاش کر رہے تھے۔
اس میں یہ اکیلے ہی نہیں تھے۔ 1981 تک یہ کام چار لیبارٹریوں میں ہو رہا تھا۔
اس سے اگلے برس تک ان میں سے تین لیبارٹریوں نے یہ جین تلاش کر لی۔ 1982 میں وائنبرگ، بارباسڈ اور وگلر نے الگ الگ اپنی دریافتوں کو شائع کیا۔
اور غیرمتوقع طور پر یہ سب الگ الگ ہونے والی تحقیقات ڈی این اے کے ایک ہی حصے تک پہنچی تھیں۔ ایک ہی جین کو الگ کیا تھا۔ یہ راس (ras) جین تھی۔ سارک کی طرح راس جین بھی ہر خلیے میں پائی جاتی تھی اور سارک کی طرح ہی راس جین کینسر کے خلیے میں میوٹیٹ ہو چکی ہوتی تھی۔  عام خلیے میں راس جین کی بنائی پروٹین نفیس طریقے سے پروٹین کا آن اور آف ہونا ریگولیٹ کرتی تھی جبکہ کینسر والے خلیے کی پروٹین آن پوزیشن میں رہتی تھی۔ اور یہ میوٹنٹ خلیات کی بے قابو تقسیم کا سبب تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وارمس اور بشپ نے جو تھیوری پیش کی تھی، اس جین کا موجود ہونا اس کا لازمی نتیجہ تھا۔ اور ان تجربات نے اس کی تصدیق کر دی تھی۔ کینسر کے خلیے سے انسانی اونکوجین برآمد ہو گئی تھی۔
تھیوری سے نکلی ہوئی پیشگوئی اور اس کی تجربے سے ہونے والی تصدیق۔ یہ خوبصورت سائنس تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وائن برگ نے لکھا، “جب ہم نے کینسر جین کو کلون کر لیا تو پھر دنیا ہمارے قدموں میں ہو گی۔ کینسر کے بارے میں نئی بصیرت اور علاج کرنے میں دھماکہ دار پیشرفت اس کے فوری بعد ہو گی۔
وائن برگ نے بعد میں لکھا، “یہ خیال ایک سہانا سپنا تھا”۔
(جاری ہے)