Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

کینسر (74) ۔ پہلی تھیوری ۔ اندر کا عفریت

سائنس کو اکثر قدم بہ قدم آگے بڑھنے والا عمل سمجھا جاتا ہے۔ ایک معمے کا حل اور پھر اگلے کا۔ ایک ٹکڑا اور پھر اگلا۔ یوں بڑی تصویر ابھرتی ہے۔ ...


سائنس کو اکثر قدم بہ قدم آگے بڑھنے والا عمل سمجھا جاتا ہے۔ ایک معمے کا حل اور پھر اگلے کا۔ ایک ٹکڑا اور پھر اگلا۔ یوں بڑی تصویر ابھرتی ہے۔ لیکن سائنس میں بڑی وضاحتی طاقت رکھنے والی بڑی تھیوری کی آمد کا طریقہ اس قدم بہ قدم اضافے سے الگ ہی ہے۔ یہ یکایک تضادات کو مٹا کر بڑی تصویر رنگ دیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک طاقتور تصور کی آمد کے بعد معمہ خود بخود ہی اپنے آپ کو سلجھا دیتا ہے۔
وارمس اور بشپ کے تجربات کا کینسر جینیات پر اثر ایسا ہی تھا۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ کینسر کا موجب بننے والے “پروٹواونکو جین” (یہ نام بشپ اور وارمس نے دیا) ایک عام خلیاتی جین ہے۔ اس میں ہونے والی میوٹیشن کیمیکل سے ہو سکتی ہے، ریڈی ایشن سے ہو سکتی ہے یا کسی اور خارجی سبب اثرانداز ہو سکتا ہے۔ تاہم یہ خارجی عوامل خلیات میں کوئی نئے جین داخل نہیں کرتے بلکہ اندرونی پروٹواونکو جین متحرک کرتے ہیں۔
روس نے 1966 میں لکھا تھا کہ “قدرت کی حسِ مزاح میں طنز اور تمسخر بھی ہے”۔ اور روس کا دریافت کردہ وائرس اسی کی ہی مثال نکلا۔ چھ دہائیوں تک روس وائرس نے ماہرینِ حیاتیات کو لبھائی رکھا۔ غلط راستے پر ڈالے رکھا۔ اور آخر میں یہی غلط راستہ گھوم کر اور بڑے طویل فاصلے سے درست منزل پر لے آیا۔ وائرل سارک سے خلیاتی سارک اور پھر اندرونی پروٹو اونکو جین تک ۔۔ جو ہمیشہ سے ہی عام خلیے کے اندر ہی موجود تھیں۔
کینسر کے جین انسانی جینوم کے اندر سے آتے ہیں۔ یہ ہمارا اپنا ہی حصہ ہیں۔ ہم یہ مہلک بوجھ اپنے جین میں اٹھائے ہوئے ہیں۔ یہ درندہ ہم سے باہر نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وارمس اور بشپ کو ریٹرووائرل اونکوجین کی خلیاتی شروعات دریافت کرنے پر 1989 کا نوبل انعام ملا۔ وارمس نے سٹاک ہوم میں انعام قبول کرتے ہوئے مشہور نظم بیووولف سے مستعار لے کر پڑھا۔
“ہم نے اپنے دشمن، کینسر کے خلیے، کو مارا نہیں۔ ہم نے اس کے ٹانگیں اور بازو نہیں توڑے۔ اپنی اس مہم میں، ہم نے اس عفریت کو زیادہ قریب سے دیکھ لیا ہے۔ اس کے پنجے اور دانتوں کو نئے طریقے سے دیکھ لیا ہے۔ اس طریقے سے جو ہمیں بتا رہا ہے کہ کینسر کا خلیہ، گرینڈیل کی طرح ہی، کچھ اور نہیں۔ یہ ہماری ہی بگڑی ہوئی صورت ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وارمس اور بشپ کی پروٹواونکو جین تھیوری کینسر کی پیدائش کی پہلی مکمل تھیوری تھی۔ یہ وضاحت کرتی تھی کہ سگریٹ کا دھواں، چمنی کی کالک، ایکسرے اور تابکاری جیسی بالکل الگ قسم چیزیں کینسر کیسے شروع کر سکتی ہیں۔ یہ خلیے میں پائی جانے والی اونکوجین کے متحرک ہو جانے سے ہوتا ہے۔ یہ ایمس کے تلاش کئے گئے کینسر اور میوٹیشن کے تعلق کی وضاحت بھی کر دیتی تھی۔ ایسے کیمیکل جو ڈی این اے میں میوٹیشن کا باعث بنیں، کینسر کا موجب بنتی ہیں کیونکہ یہ خلیاتی پروٹواونکو جین متحرک کر سکتے ہیں۔ یہ تھیوری اس کا جواب بھی دیتی ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ ایک ہی قسم کا کینسر سگریٹ نوش کو بھی ہو سکتا ہے اور اس کو بھی جس نے سگریٹ کو کبھی ہاتھ نہ لگایا ہو لیکن ان کی شرح میں بہت فرق ہو گا۔ کیونکہ دونوں میں پروٹواونکو جین تو ایک ہی ہیں لیکن سگریٹ نوش میں شرح بلند ہونے کی وجہ یہ ہے کہ تمباکو کے کارسنوجن ان جین میں میوٹیشن ریٹ بڑھا دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اب سوال یہ تھا کہ انسانی کینسر جین دیکھنے میں لگتے کیسے ہیں؟
(جاری ہے)