Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

کینسر (73) ۔ سارک کا شکار

ٹیمن نے وہ جین تلاش کر لی تھی جو مرغی میں کینسر کا سبب بنتی تھی۔ یہ سارک (src) جین تھی جو کہ ملنے والی پہلی اونکوجین تھی۔ اس سے آگے بڑھے جا...


ٹیمن نے وہ جین تلاش کر لی تھی جو مرغی میں کینسر کا سبب بنتی تھی۔ یہ سارک (src) جین تھی جو کہ ملنے والی پہلی اونکوجین تھی۔ اس سے آگے بڑھے جانا تھا۔ کیا اس کی مدد سے انسانوں میں کینسر کی تحقیق میں مدد مل سکتی ہے؟
ٹیمن کو امید تھی کہ وائرس کی سارک جین انسانی کینسر کی گتھی بھی سلجھا دے گی۔ ان کے ذہن میں اب ایک معمہ تھا جسے حل کئے جانا تھا۔ سارک جین وائرس نے کیسے حاصل کی؟ کیا یہ وائرس کی kinase تھی جو بے قابو ہو گئی تھی؟ یا پھر وائرس نے اسے خود دوسری جینز کو توڑ کر تعمیر کیا تھا؟ ٹیمن کو معلوم تھا کہ ارتقا میں نئے جین پرانی کو تراش خراش کر بن سکتے ہیں لیکن سارکوما وائرس کو اس کے اجزا کہاں سے ملے جو مرغی کے خلیے کو کینسرزدہ کر دیتے ہیں؟
سان فرانسسکو میں وائرلوجست مائیکل بشپ تھے جن کا جنون سارک کی ارتقائی ابتدا ڈھونڈنا بن گیا تھا۔ انہوں نے اپنے ساتھی وارمس کے ساتھ ملکر سارک جین کی اوریجن پر کام شروع کیا۔ دوسرے سائنسدان ان کے پراجیکٹ کو “سارک کا شکار” کہتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وارمس اور بشپ نے یہ شکار سادہ تکنیک سے شروع کیا۔ وہ ایسی خلیاتی جین ڈھونڈنا چاہتے تھے جو سارک جین سے مشابہت رکھتے ہوں۔
ڈی این اے دو رویہ لڑی کی صورت میں ہے۔ الگ ہوں تو یہ اپنے ساتھی سے جا چپکتی ہیں۔ اگر ایک کو تابکار عنصر سے نشان زدہ کیا جائے تو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کہاں جا چپکیں اور اس کی صلاحیت کا تابکاری کی پیمائش سے معلوم ہو جاتا ہے۔
بشپ اور وارمس نے اس تکنیک سے اور “چپکنے کے ری ایکشن” سے اس کی ساتھی جین سے مشابہت تلاش کرنا تھی۔
سارک وائرل جین ہے اور ان کو توقع تھی کہ عام خلیات میں اس کے ٹکڑے بکھرے ملیں گے جو اس کے دور دراز کے آباء سے تعلق بتائیں گے لیکن اس شکار نے جلد ہی پرسرار موڑ لے لیا۔ ایسا نہیں تھا کہ انہیں جینیاتی لحاظ سے تیسرا یا پانچواں کزن ملا۔ تقریباً اسی جیسی وائرل سارک جین عام خلیے کی جینوم میں ہی تھی!!
اب انہوں نے دوسری انواع کی طرف رخ کیا۔ سارک جین دوبارہ نظر آنے لگی۔ بطخ کے خلیے میں، تیتر کے خلیے میں اور مرغابی کے خلیے میں۔ پرندوں کی دنیا میں سارک جین کے قریبی رشتہ دار جگہ جگہ پر مل رہے تھے۔ اب انہوں نے اپنی تلاش کا جال وسیع کر دیا۔ اور یہ پھر بھی ملتی گئی۔ ٹرکی، چوہے، خرگوش اور مچھلی میں۔ چڑیاگھر میں جنم لینے والے نوزائیدہ ایمو میں۔ گائے اور بھیڑ میں۔ اور سب سے اہم یہ کہ انسانی خلیے میں بھی مل گئی۔ وارمس نے 1976 میں لکھا، “سارک جین ہر جگہ ہے”۔
لیکن عام خلیے کی سارک جین وائرل سارک سے identical نہیں تھی۔ نیویارک میں راک فیلر یونیورسٹی میں جاپانی وائرولوجسٹ ہانافوسا نے جب یہ موازنہ کیا تو پتا لگا کہ ان کے جینیاتی کوڈ میں ایک اہم فرق ہے۔ وائرل سارک میں ایک ایسی میوٹیشن ہے جو اس کے فنکشن میں ڈرامائی تبدیلی کرتی ہے۔ وائرل سارک پروٹین دیوانہ وار پروٹین کو فاسفیٹ گروپ کی مدد سے آن کرتی جاتی ہے اور یہ خلیاتی تقسیم کے لئے ایک مسلسل آن ہونے کا سگنل بن جاتا ہے۔ جبکہ نارمل خلیات میں پائی جانے والی سارک پروٹین بھی کائنیس ہے (جس کا یہی کام ہے) لیکن یہ اس کام کو سست رفتاری کرتی ہے۔ یہ بہت سخت ریگولیشن رکھتی ہے۔ خلیاتی تقسیم کے درمیان میں آن اور آف ہوتی ہے۔ جبکہ وائرل سارک پروٹین ہر وقت آن کی پوزیشن میں ہوتی ہے۔ اور یہ سوئچ خلیے کو تقسیم ہونے کی مشین بنا دیتا ہے۔ وائرل سارک ۔۔ جو کینسر کا موجب ہے ۔۔ خلیاتی سارک ہے جو حد سے زیادہ فعال ہے۔
ان نتائج سے تھیوری ابھرنے لگی۔ اتنی شاندار اور طاقتور کہ یہ دہائیوں سے جاری متضاد لگنے والی مشاہدات کو ایک ہی وضاحت میں پرو دیتی تھی۔ غالباً سارک جین خلیاتی جین تھی۔ شاید، وائرل سارک کا ارتقا خلیاتی سارک سے ہوا تھا۔ اس کی ابتدا وائرس میں نہیں ہوئی تھی۔
روس سارکوما وائرس ایک حیرت انگیز ارتقائی حادثے کا نتیجہ تھا۔ ریٹرووائرس خلیاتی جینوم کے اندر اور باہر مسلسل چکر لگاتے رہتے ہیں۔ اس سائیکل کے دوران یہ خلیے کے اپنے جین کے حصے ساتھ لا سکتے ہیں۔ روس سارکوما وائرس نے غالباً کسی کینسر کے خلیے کی متحرک سارک جین اٹھا لی تھی اور وائرل جینوم میں لے آیا تھا۔ اور اس وجہ سے مزید کینسر بناتا تھا۔
یہ وائرس ایک حادثاتی پیغام بر تھا۔ کینسر کسی جاندار کے خلیے میں بنا تھا اور یہ وائرس اسے کبھی اٹھا لایا تھا۔
روس اور دوسرے کینسر وائرلوجوسٹ کینسر کا سبب وائرس کو کہتے تھے۔ وہ غلط تھے لیکن بڑے عجیب طریقے سے غلط تھے۔ وائرس کینسر کا موجب بن سکتے تھے۔ لیکن ایسا کئے جانے کی وجہ ان کی خلیاتی جین کے ساتھ کی جانے والی چھیڑ چھاڑ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارک کے شکار نے دہائیوں سے جاری بحث کو نمٹا دیا تھا۔ متضاد سچ اکٹھے ہو کر کینسر کے ہاتھی کی شبیہہ بنانے لگے تھے۔
(جاری ہے)