Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

کینسر (71) ۔ وائرل تھیوری؟

ستائیس مئی 1970 کو عالمی کینسر کانگریس میں ٹیمن نے اپنے نتائج بتانا شروع کئے۔ یہ پندرہ منٹ کی تقریر تھی جو بہت خشک بائیوکیمسٹری تھی۔ لیکن جس...


ستائیس مئی 1970 کو عالمی کینسر کانگریس میں ٹیمن نے اپنے نتائج بتانا شروع کئے۔ یہ پندرہ منٹ کی تقریر تھی جو بہت خشک بائیوکیمسٹری تھی۔ لیکن جس طرح وہ اس کو بتاتے جا رہے تھے، اس کام کی اہمیت اجاگر ہوتی جا رہی تھی۔ وہ بائیولوجی کے بہت ہی بنیادی اصول پر ضرب لگا رہے تھے۔ پہلے چہ میگویاں شروع ہونے لگیں۔ جب ٹیمن درمیان میں پہنچے تو خاموشی ہو چکی تھی۔ اونگھتے ہوئے ٹیومر وائرس سپیشلسٹ اب مکمل بیدار تھے۔ نوٹس لئے جا رہے تھے۔
ٹیمن نے شناخت کر لی تھی کہ کینسر کا باعث بننے والا وائرس کا جینوم خلیے کے جینوم کا فزیکل حصہ بن سکتا ہے۔
اگلے صبح ٹیمن کے پاس ٹیلی فون کالوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ ان میں سے ایک بالٹی مور کی تھی جو یہی دریافت الگ سے کر چکے تھے اور اسی نتیجے پر پہنچے تھے۔ ٹیمن اور بالٹی مور نے اپنے مشاہدات کو پبلش کروایا جو 1970 کی گرمیوں میں نیچر جریدے میں شائع ہوئے۔
ٹیمن اور بالٹی مور نے اپنے پیپرز میں ریٹرووائرس کی زندگی کے سائیکل کی ریڈیکل اور نئی تھیوری پیش کی تھی۔  ریٹرووائرس کے جین آر این اے کی صورت میں خلیات سے باہر ہوتے ہیں۔ جب یہ وائرس خلیے کو انفیکٹ کرتے ہیں تو اپنے جین کی ڈی این اے کاپی بناتے ہیں اور خلیے کی جین کے ساتھ اٹیچ کر دیتے ہیں۔ ڈی این اے کی یہ کاپی (پرووائرس) آر این اے کاپیاں بناتے ہے اور وائرس دوبارہ جنریٹ ہو جاتا ہے اور نئے وائرس پیدا ہوتے ہیں۔ وائرس اپنے حالتوں میں مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ خلیے کے جینوم کے اندر اور پھر باہر۔ آر این اے سے ڈی این اے سے آر این اے۔ آر این اے سے ڈی این اے سے آر این اے۔ اور اسی کا لامتناہی چکر۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کولمبیا یونیورسٹی کے وائرولوجسٹ سول سپیگلمین نے ٹیمن کو سنا تھا اور ایک بڑی تھیوری بنا لی تھی۔ اگر ریٹرووائرس خلیے میں جا کر خود کو جینوم میں داخل کر سکتا ہے اور جینوم کو تبدیل کر سکتا ہے تو کسی نامعلوم مکینزم سے وائرل جین کو متحرک کر سکتا ہے اور وائرل جین ہے جو خلیے کی بے قابو تقسیم کا عمل شروع کر دیتی ہے اور یہ کینسر ہے۔
یہ وضاحت پرکشش تھی اور روس کی وائرل تھیوری اور بویری کی اندرونی جینیاتی تھیوری کا ملاپ کروا دیتی ہے۔
سپیگلمین نے اس تھیوری پر کام شروع کر دیا کہ ریٹرووائرس انسانی کینسر کا سبب ہیں۔ یہ ان کا جنون بن گیا۔ اور جلد ہی مثبت نتائج ملنے لگے۔ سپیگلمین کی سکیم کو کام کرنے کے لئے سب سے پہلے انہیں ثابت کرنا تھا کہ انسانی کینسر میں ریٹرووائرس کی جین ہوتے ہیں۔ سپیگلمین نے ریٹرووائرس جین کا ٹریس لیوکیمیا، چھاتی کے کینسر، لمفوما، سارکوما، دماغ کے ٹیومر، میلانوما میں دریافت کر لیا۔ سپیگلمین جوشیلے سائنسدان تھے جو دن رات کام کر رہے تھے۔ وہ جتنا زیادہ ریٹرووائرس کو غور سے دیکھتے تھے، کینسر کے خلیے میں انہیں یہ مل جاتے تھے اور ان کے پاس مزید تحقیق کے لئے فنڈنگ کی بارش ہو رہی تھی۔
لیکن جیسا کہ معلوم ہو گیا کہ سپیگلمین کی محنت ناقص تھی۔ وہ وائرس کے وہ ٹریس دیکھ رہے تھے جو موجود نہیں تھے۔ 1975 تک یہ پتا لگ چکا تھا کہ ان کے دریافت کردہ بہت سے وائرس موجود ہی نہیں تھے۔ صرف ایک نایاب لیوکیمیا تھا جو جزائر غرب الہند میں پایا جاتا تھا جس کی وجہ انسانی ریٹرووائرس تھی۔
انسانی کینسر کا سبب وائرس سے ملنے کی امید خاموشی سے ہوا ہو گئی۔ خرچ کئے گئے سینکڑوں ملین ڈالر بارآور نہ ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانی ریٹرووائرس کے بارے میں سپیگلمین کا خیال نصف درست تھا اور نصف غلط تھا۔ وہ ٹھیک قسم کے وائرس کو دیکھ رہے تھے لیکن غلط قسم کی بیماری میں دیکھ رہے تھے۔
بعد میں ریٹرووائرس ایک خوفناک بیماری کے سبب کے طور پر دریافت ہوئے۔ لیکن یہ بیماری کینسر نہیں تھی۔
سپیگلمین کا انتقال 1983 میں پتے کے کینسر سے ہوا۔ انہوں نے نیویارک اور سان فرانسسکو میں نمودار ہونے والی اس عجیب بیماری کا ذکر سنا تھا۔ لیکن اس بیماری کی وجہ کی شناخت ان کی وفات کے ایک سال بعد ہوئی تھا۔
یہ انسانی ریٹرووائرس HIV تھا۔
(جاری ہے)