محققین نے 1940 کی دہائی میں دریافت کیا تھا کہ خلیاتی فنکشن کا زیادہ تر حصہ پروٹین سرانجام دیتی ہیں۔ یہ انزائم بناتی ہیں، جو کہ زندگی کے کلید...
محققین نے 1940 کی دہائی میں دریافت کیا تھا کہ خلیاتی فنکشن کا زیادہ تر حصہ پروٹین سرانجام دیتی ہیں۔ یہ انزائم بناتی ہیں، جو کہ زندگی کے کلیدی بائیوکیمیکل ری ایکشن کی رفتار کنٹرول کرتے ہیں۔ پروٹین دوسری پروٹین اور مالیکیول کے ریسپٹر ہیں۔ ایک خلیے سے دوسرے میں پیغام کی ترسیل کے ذمہ دار ہیں۔ یہ خلیے کا سٹرکچرل جزو بنا سکتے ہیں۔ جیسا کہ وہ مالیکیولر ڈھانچہ جو کسی خلیے کو جگہ اور خاص شکل دیتا ہے۔ یہ دوسری پروٹین کو ریگولیٹ کرتی ہیں۔ اور خلیے میں ننھے منے سرکٹ بناتی ہیں جو خلیے کے اندر کی زندگی کو چلاتے ہیں۔
بیڈل اور ٹاٹم نے دریافت کیا کہ جین پروٹین بنانے کا بلیوپرنٹ ہیں۔ پروٹین جین کی انفارمیشن سے روپذیر ہو جانے والی صورت ہے۔ وہ مشین جو جین کی ہدایات پر بنتی ہے۔
لیکن پروٹین براہِ راست جین سے نہیں بنتیں۔ ژاک منود اور فرانسوئی جیکب نے پیرس میں، جبکہ سڈنی برینر اور میتھیو میسلسن نے کیل ٹیک میں دریافت کیا کہ جین سے پروٹین بننے کے لئے درمیانی قدم ہے جو آر این اے ہے۔
آر این اے جینیاتی بلیوپرنٹ کی کاپی ہے جس سے ترجمہ کر کے پروٹین بنائی جاتی ہے۔ آر این اے جین کا پیغام رکھتی ہے۔ جینیاتی انفارمیشن ایک خلیے سے اگلے میں خاص اور تال میل سے ہونے والے اقدام سے ہوتی ہے۔ پہلے کروموزوم میں جین کے ڈپلی کیٹ ہوتے ہیں اور پھر اگلے خلیات میں جاتے ہیں۔ پھر جین کی آر این اے کاپی بنتی ہے اور پھر اس سے پروٹین بنتی ہے۔ پروٹین جینیاتی انفارمیشن کا پرڈکٹ ہے اور یہ وہ فنکشن کرتی ہے جن کا کوڈ جین میں ہے۔
سرخ آنکھ والی مکھی کی آنکھ کی سرخی اس لئے ہے کہ اس کے پاس وہ جین ہے جس میں وہ انفارمیشن ہے جو ایسا پروٹین بنا سکتی ہے جو سرخ رنگ دیتی ہے۔ اور جب بھی یہ تقسیم ہو گی تو یہ ہدایت ویسے ہی رہے گی۔
اگر اس انفارمیشن فلو میں کوئی خلل پڑ جائے تو پھر ہی یہ ممکن ہے کہ اگلی نسل کی آنکھ میں یہ سرخی نہ جائے۔
ڈی این اے سے آر این اے اور آر این اے سے پروٹین۔ انفارمیشن کا یہ بہاوٗ تمام جانداروں میں آفاقی ہے۔ بیکٹیریا سے پھپھوندی سے مکھی سے انسان تک ۔۔۔ یہی زندگی کا ڈیزائن ہے۔ اور اس کو بائیولوجی کا مرکزی ڈوگما قرار دے دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مینڈیل سے مونود تک ایک سو سال میں نارمل خلیے کے کام کرنے کے اندرونی طریقے کو دریافت کر لیا گیا تھا لیکن یہ کینسر کے خلیے پر یا کینسر کی وجہ پر کوئی روشنی نہیں ڈالتا تھا۔ لیکن اس میں دو دلچسپ استثنا تھے۔
پہلا انسانوں کی سٹڈی سے آیا تھا۔ انیسوٰں صدی میں ڈاکٹروں نے دیکھا تھا کہ کچھ قسم کا کینسر، جیسا کہ چھاتی کا یا پھر اووری کا، خاندانوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ مشاہدہ خود میں وراثتی کاز ثابت نہیں کرتا تھا۔ کیونکہ خاندانوں میں مشترک شے صرف جین ہی نہیں ہوتیں۔ عادات، خوراک، کیمیکلز کا سامنا، وائرس، رویے اور لائف سٹائل بھی مشترک ہوتا ہے اور یہ بیماری کی وجہ بن سکتے ہیں۔ لیکن کئی بار خاندانی تاریخ اتنی نمایاں ہوتی ہے کہ وراثتی وجہ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
(جاری ہے)