ایک طرف کینسر کے خلیے کی میکانکی سمجھ وائرس اور کروموزوم کے درمیان معلق تھی۔ لیکن دوسری طرف بائیولوجی میں نارمل خلیے کی سمجھ میں انقلاب برپا...
ایک طرف کینسر کے خلیے کی میکانکی سمجھ وائرس اور کروموزوم کے درمیان معلق تھی۔ لیکن دوسری طرف بائیولوجی میں نارمل خلیے کی سمجھ میں انقلاب برپا تھا۔ اس انقلاب کے بیج آسٹریا کی خانقاہ میں گریگور مینڈیل نے بوئے تھے، جو شوقیہ باغبان تھے۔
مینڈیل نے مٹر کے پودوں پر تجربات سے شناخت کیا تھا کہ خاصیتیں وراثت میں کیسے منتقل ہوتی ہیں۔
مینڈیل کے تجربات کے اثرات دوررس تھے۔ انہوں نے دکھایا تھا کہ یہ خاصیتیں ڈسکریٹ پیکٹ کی صورت میں ہیں۔ انفارمیشن کے یہ پیکٹ منتقل ہوتے ہیں۔
مینڈیل تو صرف ان کا تصور کر سکتے تھے کہ رنگ، قد وغیرہ ایک نسل سے اگلی نسل میں جا رہا ہے لیکن وہ اس انفارمیشن کی منتقلی کا مکینزم نہیں دیکھ یا جان سکتے تھے۔ ان کی خوردبین اتنی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ ان کے پاس انفارمیشن کے اس پیکٹ کے لئے کوئی نام بھی نہیں تھا۔ یہ نام ماہرینِ نباتات نے 1909 میں رکھا اور اس کو جین کہا۔ لیکن یہ صرف نام ہی تھا۔ اس میں کوئی وضاحت نہیں تھی کہ جین کا سٹرکچر یا فنکشن کیا ہے۔ مینڈیل کی تحقیق نے بائیولوجی کے لئے ایک سوال کھڑا کر دیا تھا جو نصف صدی تک کھلا رہا۔ اس جین کی فزیکل صورت کیا ہے؟ وراثت کا یہ ذرہ خلیے میں آخر پایا کہاں جاتا ہے؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھامس مارگن ایک ایمبریولوجسٹ تھے جنہوں نے اس سوال کا جواب دریافت کر لیا۔ اور یہ مکھیوں سے کیا گیا تھا۔ کمرے میں گلے سڑے کیلوں پر ہزاروں مکھیوں کو پالا تھا۔ اور معلوم کیا تھا کہ آنکھوں کے رنگ اور پروں کے پیٹرن والدین سے اگلی نسل میں مکمل یونٹ کے طور پر منتقل ہوتے ہیں۔
مورگن نے ایک اور مشاہدہ کیا۔ انہوں نے یہ نوٹ کیا کہ شاذ و نادر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی ایک نایاب خاصیت ایسی ہوتی ہے جس کا تعلق جنس سے ہے۔ مثلاً، سفید آنکھ صرف نر میں ہیں۔ جبکہ مورگن کو معلوم تھا کہ نر ہونے کا تعلق کروموزوم سے ہے۔ یہ تیس سال پہلے فلیمنگ نے معلوم کیا تھا۔ اب مورگن کو سمجھ آنے لگی۔ کروموزوم خلیاتی تقسیم میں ڈپلیکیٹ ہوتے یہں اور ایک خلیے سے اگلے میں منتقل ہوتے ہیں اور ایک جاندار سے اگلے میں۔
کروموزوم کی خرابی سمندری ارچن کے خلیے کے بڑھنے اور ڈویلپ ہونے کا سبب بنتی ہیں۔ اور اس کی وجہ جین میں خرابی ہو گی۔ 1915 میں مورگن نے مینڈیل کی تھیوری میں ایک اہم پیشرفت کی۔
“خلیات کی تقسیم کے وقت کروموزوم ہیں جو جین کو ایک خلیے سے اگلے میں منتقل کرتی ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے آگے بڑھانے والے اوسوالڈ ایوری تھے۔ مینڈیل نے معلوم کر لیا تھا کہ جین ایک نسل سے اگلی میں جاتی ہیں۔ مورگن نے پتا لگا لیا تھا کہ یہ انفارمیشن کروموزوم میں ہے۔ جبکہ 1926 میں ایوری نے معلوم کیا کہ بیکٹیریا میں جینز ایک جاندار سے دوسرے میں بھی منتقل ہو جاتی ہیں۔ ایک بیکٹیریا سے اس کے ہمسائے میں۔ یہاں تک کہ مردہ بیکٹیریا سے بھی جینیاتی انفارمیشن زندہ بیکٹیریا میں چلی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جین جس کیمیکل کا حصہ تھے، یہ ری ایکٹو نہیں تھا اور اپنی انفارمیشن محفوظ رکھتا تھا۔ ایوری اور ان کے ساتھیوں نے 1944 میں رپورٹ کیا کہ جین کی انفارمیشن ایک کیمیکل میں ہے جو ڈی اوکسی رائیبو نیوکلئیس ایسڈ یا ڈی این اے ہے۔
اس سے قبل سائنسدان اس کو بے کار سے شے سمجھتے تھے۔ میکس ڈلبرک نے اس کو “احمق مالیکیول” کہا تھا۔ یہی مالیکیول جینیاتی انفارمیشن کا مرکزی کیرئیر تھا۔ اور شاید کیمیائی دنیا میں سب سے کم احمق مالیکیول تھا۔
جین کے لفظ کی تخلیق کے تین دہائیوں بعد جین کی مالیکیولر نیچر فوکس میں تھی۔ جین وراثت کا یونٹ تھا جو ایک خلیے سے دوسرے میں اور ایک نسل سے اگلی میں حیاتیاتی خاصیتیں لے کر جاتا تھا۔ فزیکلی، جین خلیے میں کروموزوم کی صورت میں تھیں۔ کیمیائی طور پر یہ ڈی این اے سے بنی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن جین تو صرف انفارمیشن رکھتی ہے۔ اس کی فنکشنل، فزیکل اور کیمیکل سمجھ کے ساتھ میکانکی سمجھ کی بھی ضرورت تھی۔ جینیاتی انفارمیشن خلیے میں ظاہر کیسے ہوتی ہے؟ جین کرتی کیا ہے؟ اور کیسے کرتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جارج بیڈل نے اس کے لئے ایک اور جاندار ڈھونڈا تھا۔ یہ سلائم مولڈ تھا۔ ایڈورڈ ٹاٹم کے ساتھ ملکر انہوں نے معلوم کیا کہ جین ہدایات رکھتی ہیں جو پروٹین بنا سکیں۔ یہ پیچیدہ اور کئی جہتی میکرومالیکیول ہیں جو خلیات میں کام کرتے ہیں۔
(جاری ہے)