بویری سمندری ارچن کے انڈوں کی سٹڈی کر رہے تھے۔ اٹلی میں نیپلز کے ساحل پر یہ سادہ جاندار تھے۔ زیادہ تر انواع کے انڈوں کی طرح یہ انڈے بھی سختی...
بویری سمندری ارچن کے انڈوں کی سٹڈی کر رہے تھے۔ اٹلی میں نیپلز کے ساحل پر یہ سادہ جاندار تھے۔
زیادہ تر انواع کے انڈوں کی طرح یہ انڈے بھی سختی سے ایک پارٹنر رکھنے کے قائل تھے۔ ایک بار ایک سپرم ان میں داخل ہو جائے تو یہ فٹافٹ رکاوٹ کھڑی کر دیتے تھے کہ کوئی اور نہ آنے پائے۔ فرٹیلائز ہو جانے کے بعد انڈہ تقسیم ہوتا تھا۔ دو میں، پھر چار میں۔ اور ہر بار کروموزوم کی ڈپلی کیشن ہوتی تھی۔ اور یہ دونوں نئے خلیات میں برابر تقسیم ہوتے تھے۔ اس کا قدرتی مکینزم سمجھنے کے لہئے بوویری نے تجربہ ایجاد کیا۔ انہوں نے ارچن کے انڈرے کی بیرونی جھلی کیمیکل کی مدد سے اتار دی۔ تا کہ ایک سپرم کی رکاوٹ ختم ہو اور اسے بیک وقت دو سپرمز کے ساتھ فرٹیلائز کیا جا سکے۔
بویری کو پتا لگا کہ اس طریقے سے فرٹیلائز کئے جانے نے کروزومل chaos پیدا کر دیا تھا۔ ہر کروموزوم تین ہو گئے تھے۔ اس کی برابر تقسیم ناممکن تھی۔ ارچن کے انڈے جب برابر تقسیم نہیں ہو پاتے تھے تو اندر گڑبڑ کا طوفان برپا ہو جاتا تھا۔ ایسے نئے خلیات جن کو سمندری ارچن کے چھتیس خلیات کا ٹھیک کمبی نیشن مل جائے نارمل طریقے سے آگے ڈویلپ ہو جاتے تھے۔ لیکن جن کو یہ نہ مل پائے، وہ یا تو ڈویلپ نہیں ہو سکتے تھے یا اس کے درمیان میں رک جاتے تھے اور مر جاتے تھے۔ بویری نے نتیجہ نکالا کہ کروموزوم میں کوئی اہم انفارمیشن ہے جو خلیات کی ڈویلپمنٹ اور بڑھنے کے لئے ضروری ہے۔
اس مشاہدے کی بنیاد پر بویری کینسر کے خلیات کے بارے میں ایک دور کی کوڑی لائے۔ چونکہ کینسر کے خلیے کے کروموزوم میں کچھ ٹھیک نہیں تو پھر یہی ایبنارملیٹی ہے جو کہ کینسر کے بڑھنے کی پیتھالوجیکل وجہ ہے۔
بویری اپنے اس خیال میں واپس جالینوس کی طرف جا رہے تھے۔ اس پرانے خیال کی طرف کہ تمام کینسرز میں ایک مشترک ایبنارمیلیٹی ہے۔ بویری نے اسے کارسنوما کی واحد وجہ کہا۔ انہوں نے لکھا کہ “کینسر الگ بیماریوں کا گروپ نہیں۔ ان سب کے پیچھے ایک مشترک فیچر پایا جاتا ہے۔ ایک خرابی جو ایبنارمل کروموزوم کی وجہ سے ہے۔ اور یہ کینسر کے خلیے کے اندر ہے۔
بویری اس گہری اندرونی خامی پر انگلی تو نہیں لگا پائے لیکن کارسنوما کی یہ “واحد وجہ” جالینوس کا سیاہ سیال نہیں بلکہ نیلی کروموزوم میں ہونے والی گڑبڑ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بویری نے اپنی کروموزومل تھیوری کو 1914 میں شائع کیا۔ یہ بہترین کام تھا جو فیکٹ، فینٹیسی اور اندازے کی مدد سے سمندری ارچن اور کینسر کو ایک ہی چادر میں سمو لیتا تھا۔ لیکن بویری کی تھیوری ایک غیرمتوقع مسئلے میں پھنس گئی۔
بویری کے کام سے چار سال قبل پیٹن روس نے یہ دکھا دیا تھا کہ مرغیوں میں کینسر وائرس کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مرکزی مسئلہ یہ تھا کہ روس کا دریافت ہونے والا وائرس اور بویری کی کروموزوم کی تھیوری کینسر کی کاز کے طور پر بیک وقت درست نہیں ہو سکتے تھے۔ وائرس ایک بیرونی ایجنٹ ہے جو خلیے میں باہر سے آتا ہے۔ کروموزوم اندرونی اینٹیٹی ہے جو خلیے کی گہرائی میں دفن ہے۔ یہ دونوں ملکر ایک بیماری کی “ایک وجہ” ہونے کا دعویٰ کر ہی نہیں سکتے۔ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ باہر سے آنے والا وائرس اور اندر پایا جانے والا سٹرکچر دونوں ہی کینسر کر سکیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ دونوں تھیوریوں کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا، اس لئے، بطور وجہ، وائرس زیادہ پرکشش اور مانی جانے والی تھیوری تھی۔ وائرس کو 1898 میں سب سے پہلے پودوں کی بیماریوں کی وجہ کے طور پر الگ کیا گیا تھا۔ اور بعد میں معلوم ہونے لگا تھا کہ یہ جانوروں اور انسانوں میں بھی بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں۔ 1909 میں کارل لینڈسٹائنر نے معلوم کیا تھا کہ پولیو کی وجہ وائرس ہے۔ دوسری بیماریوں کے ساتھ وائرس کا تعلق اگلی دہائیوں میں ملنے لگا تھا۔
اس وجہ پر یقین کا تعلق علاج ملنے کی امید سے بھی تھا۔ اگر وجہ کا ایجنٹ باہر سے آنے والی انفیکشن ہو تو پھر علاج مل جانے کا امکان زیادہ ہے۔ یہ دکھایا جا چکا تھا کہ چیچک کی انتہائی مہلک انفیکشن کو ویکسین سے روکا جا سکتا ہے۔ اس لئے روس کی کینسر کا باعث بننے والی دریافت نے فوری طور پر ہی کینسر کی ویکسین کا خیال بھی چھیڑ دیا تھا۔
جبکہ دوسری طرف بویری کی تھیوری کے مطابق کینسر کروموزوم کے دھاگوں میں پائے جانے والے کسی پرسرار خرابی میں پوشیدہ تھا۔ اس کے تجرباتی شواہد کمزور تھے اور اس صورت میں علاج کی امید نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وائرس؟ یا کروموزوم؟ کارسینوجینسس کی دو مخالف تھیوریوں کا یہ مقابلہ کئی دہائیوں تک جاری رہا۔
(جاری ہے)