“میں نے چند مائیکرولیٹر خون کے سرطان زدہ خلیات اٹھائے اور انہیں خوردبین کے نیچے رکھا۔ یہ خلیے پھولے ہوئے اور بھدی شکل کے ہیں۔ پھیلا ہوا نیوک...
“میں نے چند مائیکرولیٹر خون کے سرطان زدہ خلیات اٹھائے اور انہیں خوردبین کے نیچے رکھا۔ یہ خلیے پھولے ہوئے اور بھدی شکل کے ہیں۔ پھیلا ہوا نیوکلئیس اور سائیٹوپلازم کی بہت پتلی سی دیوار۔ یہ ایسے خلیے کا نشان ہے جس کی روح کو تقسیم ہونے اور پھر تقسیم ہونے کے صرف ایک ہی مقصد کے لئے جکڑ لیا گیا ہے۔ یہ خلیات میری لیبارٹری میں نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ سے آئے ہیں۔ یہاں پر پچھلے تیس برس سے ان کو سٹڈی کیا جا رہا ہے۔ یہ تقسیم ہو رہے ہیں، بڑھ رہے ہیں، ان کو جگہ جگہ لے جا کر تجربات ہو رہے ہیں۔ اور یہ حقیقت کہ یہ ابھی تک ویسے ہی تیزی سے بڑھ اور پھل پھول رہے ہیں، اس بیماری کی خوفزدہ کر دینے والی طاقت کا مظاہرہ ہے۔
یہ خلیات تکنیکی لحاظ سے لافانی ہیں۔ جس خاتون کے جسم سے انہیں لیا گیا تھا، اس کے انتقال کو تیس برس ہو چکے”۔
یہ الفاظ کینسر کے ایک محقق نے لکھے ہیں۔ دہائیوں پہلے وفات پا جانے والی خاتون کے کینسر لیبارٹری میں تحقیق کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ خلیات ہر لحاظ سے ابھی بھی زندہ ہیں اور تقسیم ہو رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورچو نے بڑھنے کی اس طاقت کا ادراک 1858 میں کر لیا تھا۔ ورچو نے یہ سمجھ لیا تھا کہ کینسر خلیات کی بے قابو تقسیم ہے لیکن انہیں اس کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا تھا کہ جسم پر جب سوزش ہوتی ہے، مثلاً کسی چوٹ سے ہونے والی سرخی اور امیون سسٹم کا حرکت میں آنا، تو یہ خلیات میں ضرر کا باعث بنتا ہے۔ اور اس سے کینسر وجود میں آتا ہے۔
ایک حد تک وہ ٹھیک تھے۔ دائمی سوزش جو کئی دہائیوں تک رہے کینسر کا سبب بنتی ہے (ہیپائٹاٹس وائرس کی دائمی انفیکشن جگر کے کینسر کا سبب بنتی ہے) لیکن ورچو اس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے تھے۔
کسی زخم کا مقابلہ کرنے کے لئے جواب میں خلیات تقسیم ہوتے ہیں لیکن خلیات کی یہ تقسیم بیرونی ایجنٹ کی وجہ سے ہے جو بیکٹیریا یا زخم ہے۔ جبکہ کینسر میں خلیات خودکار تقسیم ہوتے ہیں۔ بیرونی ایجنٹ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے اندرونی سگنل سے۔ ورچو کا خیال تھا کہ فزیولوجیکل خرابی خلیے کے باہر ہے، لیکن وہ یہ بات نہیں سمجھ سکے تھے کہ اصل خامی کینسر کے خلیے کے اندر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورچو کی برلن لیبارٹری سے دو سو میل دور پراگ میں 1879 میں والتھر فلیمنگ ایبنارمل خلیاتی تقسیم کی وجہ جاننا چاہ رہے تھے اور اس کے لئے انسانی خلیات کے بجائے سیلامینڈر کے انڈے استعمال کئے تھے۔ تقسیم ہونے والے انڈوں کو اینیلین سے داغدار کیا۔ اور اس داغ نے خلیاتی نیوکلئیس کے اندر دھاگے کی طرح کا مادہ آشکار کر دیا جو خلیے کی تقسیم سے بالکل پہلے رنگ بدلتا تھا۔ فلیمنگ نے اس سٹرکچر کو کروموزوم کہا (جس کے معنی رنگدار جسم کے ہیں)۔ انہوں نے معلوم کیا کہ ہر نوع میں کروموزوم کی خاص تعداد ہوتی ہے۔ (انسانوں میں 46، سیلامنڈر میں 14)۔ کروموزوم خلیے کے تقسیم کے وقت دونوں نئے خلیات میں برابر تقسیم ہوتے ہیں اور ڈپلیکیٹ ہوتے ہیں جس وجہ سے خلیے کی ایک نسل سے اگلی میں ان کی تعداد یکساں رہتی ہے۔ لیکن فلیمنگ اس پرسرار رنگدار جسم کا فنکشن نہیں جان پائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیوڈ پال وان ہانسمین نے فلیمنگ اور ورچو کے کاموں کا تعلق جوڑ کر نتیجہ نکالا۔ کینسر کے خلیات کو انالین ڈائی سے داغدار کیا اور خوردبین کے نیچے رکھا۔ ہانسمین نے نوٹ کیا کہ کینسر کے خلیے میں یہ کروموزوم نارمل خلیات کی طرح نہیں۔ خلیاتی تقسیم بے قاعدہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وان ہانسمین کے مشاہدے کا ایک گہرا نتیجہ تھا۔ زیادہ تر سائنسدان کینسر کے خلیات میں باہر سے آنے والے گھس بیٹھئے تلاش کرتے رہے۔ لیکن وان ہانسمین نے تجویز کیا تھا کہ اصل خرابی ان خلیات کی اندرونی ہے۔ کروموزوم میں ہے اور یہ کینسر کے خلیے میں ہیں۔
لیکن کیا یہ کاز تھی یا ایفیکٹ؟ کیا کینسر نے کروموزوم کا سٹرکچر تبدیل کیا تھا؟ یا پھر کروموزوم کی تبدیلی کی وجہ سے کینسر ہوا تھا؟ وان ہانسمین نے ان تبدیلیوں اور کینسر کے تعلق کا کورریلیشن تو نکال لیا تھا۔ لیکن ایک تجربہ درکار تھا جو ان میں سے کاز کا تعین کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تجربہ تھیوڈور بویری کی لیبارٹری سے آیا۔
(جاری ہے)