سرجری کی تکنیک میں 1980 کی دہائی میں بہت کچھ نیا آ رہا تھا۔ سرجن اب کلسٹر آپریشن کر رہے تھے۔ کینسر کا شکار مریضوں کے اعضا کے کلسٹر کے ٹران...
سرجری کی تکنیک میں 1980 کی دہائی میں بہت کچھ نیا آ رہا تھا۔ سرجن اب کلسٹر آپریشن کر رہے تھے۔ کینسر کا شکار مریضوں کے اعضا کے کلسٹر کے ٹرانسپلانٹ کئے جا رہے تھے۔ جگر، پتا، آنت کے حصے ایک ہی آپریشن میں تبدیل کر دئے جاتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس کے درمیان ایک نیا پروسیجر آیا جس نے عالمی توجہ حاصل کی اور چھا گیا۔ یہ ABMT (آٹولوگس بون میرو ٹرانسپلانٹ) تھا۔ ہڈی کے گودے کی پیوندکاری کینسر کے علاج کو ایک نیا رخ دے سکتی تھی۔
ہائی ڈوز ملٹی ڈرگ کیموتراپی سے ہوجکن کی بیماری اور لیوکیمیا کو ٹھیک کیا جا چکا تھا۔ لیکن پھیپھڑے اور چھاتی کے کینسر جیسے ٹھوس ٹیومر بچ جاتے تھے۔ کیموتھراپسٹ کا سوال تھا کہ کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ استعمال کردہ ادویات پوری طاقت سے نہیں دی جا رہیں؟ کیا سائیکوٹوکسک ادویات کی ڈوز کو دگنا یا چار گنا کیا جا سکتا ہے؟ اس میں ذیلی سوال یہ تھا کہ مریض کو مارے بغیر یہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟
ڈوز کی حد کا تعلق اس سے ہے کہ کونسی حد ہے جس پر نارمل خلیات اتنے نہ مر جائیں کہ مریض کی جان چلی جائے۔ اور کیموتھراپی کی ادویات کی حد عام طور پر ایک عضو متعین کر دیتا تھا۔ یہ ہڈی کا گودا تھا۔ خلیات کی یہ فیکٹری نازک تھی اور زہر کی حد کا بیرئیر تھا۔ اونکولوجسٹ اس کو “سرخ چھت” کہتے تھے۔
ڈونال تھامس نے تجربہ کر کے دکھایا تھا کہ گردے یا جگر کی طرح ہڈی کا گودا بھی ٹرانسپلانٹ کیا جا سکتا ہے۔ واپس خود اسی مریض میں (جو آٹولوگس ٹرانسپلاٹ ہے) یا پھر کسی دوسرے مریض میں (جو ایلوجینک ٹرانسپلانٹ ہے)۔
دوسرے مریض کا گودا ٹرانسپلانٹ کرنے میں مسائل تھے۔ کئی بار یہ مہلک ثابت ہوتا تھا۔ لیکن یہ چند اقسام کے کینسر، خاص طور پر لیوکیمیا، کا علاج کرنے کی اہلیت بھی رکھتا تھا۔ کسی مریض کا گودا ہائی ڈوز کیموتھراپی سے تباہ کیا جا سکتا تھا اور اس کی جگہ کسی اور شخص کا تازہ اور صاف گودا ڈالا جا سکتا تھا۔
جب نیا گودا گرافٹ کر لیا جاتا تو یہ خطرہ موجود تھا کہ اس کا اپنا جسم اس پر حملہ آور ہو جائے۔ یہ گرافٹ بمقابلہ میزبان کی بیماری (GVHD) تھی۔
کئی مریضوں میں ہائی ڈوز کیموتھراپی، گودے کا ٹرانسپلانٹ اور ٹیومر پر بیرونی خلیات کا حملہ ۔۔۔ یہ تینوں ملکر علاج کا طاقتور ہتھیار بن جاتے تھے۔ کینسر کے اس ممکنہ علاج میں خطرات تھے۔ تھامس کے ابتدائی تجربات میں سو میں سے صرف بارہ مریض زندہ بچے تھے۔ لیکن 1980 کی دہائی تک ڈاکٹر اس کو ملٹی پل مائی لوما، ریفیکٹری لیوکیمیا اور مائیلوڈسپلاسٹک سنڈروم میں استعمال کرنے لگے تھے۔ یہ بیماریاں کیموتھراپی کے خلاف مدافعت دکھاتی تھیں۔ کامیابی محدود تھی لیکن کم از کم کچھ مریض ٹھیک ہو جاتے تھے۔
دوسرا طریقہ آٹولوگس ٹرانسپلانٹ تھا۔ اس میں مریض کا اپنا گودا نکالا جاتا تھا، اس کو فریز کر لیا جاتا تھا اور اس کو واپس جسم میں ڈال دیا جاتا تھا۔ اس میں کسی ڈونر کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کا مقصد بیمار ہو جانے والے گودے کو تبدیل کرنا نہیں تھا بلکہ کیموتھراپی کی ڈوز میں اضافہ کرنا ممکن بنانا تھا۔ ڈرگز کے طاقتور وار کینسر کو مارنے کے لئے کئے جاتے تھے۔ فریز کئے گئے گودے کو پھر واپس ڈالا جاتا تھا۔ چونکہ اس پر پہلے کیموتھراپی کا وار نہیں ہوا ہوتا تھا تو کیمو کی ڈوز کو پہلے سے بہت بڑھایا جا سکتا تھا۔
یہ میگاڈوز کیموتھراپی کی تھیوری تھی اور اس میں اے بی ایم ٹی کا پروسیجر راستے کی رکاوٹ دور کر دیتا تھا۔ زہریلی کاک ٹیل میں پانچ سے دس گنا تک کا اضافہ کیا جا سکتا تھا۔
ٹام فرائے اس کے پرجوش حامی تھے۔ وہ اس کے قائل تھے کہ بون میرو ٹرانسپلانٹ اور میگاڈوز کیموتھراپی کینسر کے مکمل علاج کا واحد طریقہ ہو گا۔
اپنی تھیوری کو ٹیسٹ کرنے کے لئے وہ کیموتھراپی کی تاریخ کا ایک بڑا ٹرائل شروع کرنا چاہتے تھے۔ اس کا نام STAMP (سولڈ ٹیومر آٹولوگس میرو پروگرام) رکھا گیا۔
امید یہ تھی کہ سٹمپ کینسر کو تہس نہس کر دے گا۔ فرائے نے اپنے ساتھی کو 1982 میں بتایا کہ “مجھے یقین ہے کہ چھاتی کے کینسر کا علاج اب ہمارے ہاتھ میں ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرائے کی رجائیت کچھ زیادہ تھی۔ اس وقت تک ٹرائل پہلا مریض داخل نہیں ہوا تھا۔
فرائے نے 1982 میں نوجوان ڈاکٹر ولیم پیٹرز کو کینسر انسٹیٹیوٹ میں رکھا۔ پیٹرز ایک بہت ہی لائق طالبعلم رہے تھے بائیوکیمسٹری، بائیوفزکس اور فلسفے میں ڈگری کی تھی اور میڈیکل ڈاکٹر ہونے کے ساتھ پی ایچ ڈی بھی تھے۔
فرائے کی راہنمائی میں پیٹرز نے سٹیمپ کا تفصیلی پروٹوکول بنایا۔ اور ادارے سے اس کے ٹرائل کی اجازت لے لی۔ پیٹرز یاد کرتے ہیں، “ہم بہت پرجوش تھے۔ ہمیں یقین تھا کہ کچھ ایسا کرنے جا رہے ہیں، جو تاریخ بدل دے گا”۔
(جاری ہے)