مارچ 1981 میں ڈاکٹروں کی ٹیم نے نیویارک میں انتہائی نایاب قسم کے کینسر کاپوسی سارکوما کے آٹھ کیسز یکے بعد دیگرے دیکھے۔ یہ غیرمعمولی تھا۔ کا...
مارچ 1981 میں ڈاکٹروں کی ٹیم نے نیویارک میں انتہائی نایاب قسم کے کینسر کاپوسی سارکوما کے آٹھ کیسز یکے بعد دیگرے دیکھے۔ یہ غیرمعمولی تھا۔ کاپوسی سارکوما نئی بیماری نہیں تھی۔ انیسویں صدی میں ہنگری کے ماہرِ امراضِ جلد نے اسے دریافت کیا تھا۔ یہ جلد پر بننے والا جامنی رنگ کا ٹیومر تھا جو عمررسیدہ لوگوں میں ہوتا تھا۔ عام طور پر سنجیدہ چیز نہیں تھی۔
لیکن یہ تمام کیس اس کی عجیب شکل تھے۔ بہت جارحانہ، جن سے خون رِستہ تھا اور نوجوان لوگوں میں تھے۔ یہ آٹھوں نوجوان ہم جنس پرست تھے۔ خاص طور پر آٹھواں کیس زیادہ کھٹکنے والا تھا۔ مریض کے سر اور کمر پر ہونے والے زخموں کے علاوہ اس کو ایک بہت نایاب قسم کا نمونیا (پی سی پی) بھی تشخیص ہوا تھا۔
ایک نایاب بیماری کا نوجوانوں میں اکٹھے آ جانا اور پھر ایک اور نایاب بیماری کا بھی پائے جانا، یہ ایسا واقعہ تھا جس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کیا اس کے پیچے کچھ گہرا اور تاریک مضمر تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔
نمونیا کے اس سٹرین کے نمودار ہو جانے نے کئی جگہوں سے توجہ حاصل کر لی۔ یہ انسانوں میں صرف اسی وقت آ سکتا ہے جب کسی کا امیون سسٹم تباہ ہو چکا ہو۔ اس سے پہلے یہ کینسر کے ان مریضوں میں نظر آیا تھا جہاں پر کیموتھراپی کی بھاری ڈوز کی وجہ سے سفید خلیات ختم ہو چکے ہوں۔ جبکہ ان مریضوں میں اس کی کوئی تک ہی نہیں بنتی تھی۔ یہ نوجوان تھے۔ اس سے پہلے صحتمند تھے اور اس حالت میں پی سی پی؟؟ کہیں پر کچھ گڑبڑ تھی۔
موسمِ گرما میں سی ڈی سی (بیماریوں کو قابو کرنے کے ادارے) میں یہ پتا لگنا شروع ہو گیا تھا کہ گڑبڑ تو ہے۔ جون اور اگست 1981 کے حبس زدہ موسم میں مریضوں کے نئے جمگھٹے ملنے لگے۔ پی سی پی، کاپوسی سارکوما، کرپٹوکوکل میننجائٹس اور نایاب قسم کے لمفوما کے کیس نوجوانوں میں آنے لگے۔ ان مریضوں میں مشترک چیز یہ تھی کہ ان کا امیون سسٹم ختم ہو چکا تھا۔
ابھی اس کی وجہ کا تو معلوم نہیں ہوا تھا کہ اس سنڈروم کو جولائی 1982 میں وہ نام مل گیا جس سے ہم اسے آج جانتے ہیں۔ یہ AIDS تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی پیدائش کا اعلان کرتے وقت یہ کینسر سے منسلک تھی۔ بعد میں یہ بار بار ایک دوسرے کے راستے میں کئی طریقے سے آتے رہے۔
ایڈز کے مریض بے یارومددگار وارڈز میں پڑے تھے۔
یہ بیماری ہے کیا؟ ہوتی کیوں ہے؟ پھیلتی کیسے ہے؟ کیا کیا جائے؟ کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ اور غلط فہمیوں کی وجہ سے نہ صرف جسمانی بیماری تھی سماجی رسوائی بھی سمجھا جاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان مریضوں کو کونسا ڈاکٹر دیکھے؟ یہ کینسر کا علاج کرنے والے اونکولوجسٹ کے پاس آیا۔
ایسے ایک ڈاکٹر اور ریسرچر وولبرڈنگ تھے۔ ان کی نظر میں ایڈز ایک کینسر کی قسم تھی۔ مریضوں کے لئے کینسر کی طرز کا وارڈ ڈیزائن ہوا۔ ویسا ہی نرسنگ سٹاف اور سائیکوسوشل سپورٹ کے لئے عملہ۔ ادویات کے لئے مختلف کیموتھراپی ریجیمن کی پروٹوکول مستعار لی گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنوری 1982 میں جب ایڈز کے کیس بڑھ رہے تھے۔ ایڈز ایکٹوسٹ تنظیم اس وقت قائم ہوئی۔
ایڈز کے بارے میں ایک بریک تھرو 1983 میں پیرس کی لیبارٹری میں ہوا۔ یہاں پر لو مونٹاگنے کے گروپ نے کاپوسی سارکوما کے ایک نوجوان مریض اور زائرے کی ایک خاتون کے لمف نوڈ کی بائیوپسی میں ایک وائرس کے نشان ڈھونڈ لئے تھے۔ مونٹاگنے نے جلد ہی نتیجہ اخذ کر لیا کہ یہ آر این اے وائرس ہے جو انسانی جینوم میں داخل ہو سکتا ہے۔ یہ ایک ریٹرووائرس ہے۔ انہوں نے اس وائرس کو ایڈز کی وجہ قرار دیا۔
نیشل کینسر انسٹیٹوٹ کا ایک اور گروپ رابرٹ گالو کی قیادت میں امریکہ میں اس پر کام کر رہا تھا۔ گالو نے بھی ایڈز کے مریضوں میں اسی وائرس کی شناخت کر لی۔ چند ماہ بعد سان فرانسسکو کے ایک گروپ نے بھی یہی معلوم کر لیا۔
تئیس اپریل 1984 کو امریکہ کی وزیرِ صحت مارگریٹ ہیکلر نے پریس کو یہ خبر دے دی کہ بیماری کی وجہ معلوم ہو چکی ہے۔
“فنڈز، میڈیکل کے ماہرین اور تحقیق نشانے کا تیر نشانے پر لگا ہے۔ ہم اس کی وجہ تک پہنچ گئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اگلے دو سال میں اس کی ویکسین تیار ہو گی۔ آج کی دریافت اس خوفناک بیماری کے خلاف سائنس کی فتح ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ایڈز تباہی مچا رہا تھا اور ایڈز ایکٹوسٹ اتنا انتظار نہیں کر سکتے تھے۔ اور اس وقت تنظیم قائم کی گئی جو ACT UP تھی۔ اس کے سربراہ لیری کریمر تھے جنہوں نے وعدہ کیا کہ “وہ ایسی تحریک چلائیں گے جو کبھی میڈیکل کی تاریخ میں نہیں چلائی گئی ہو گی”۔
انہوں نے اپنا ولن ادویات منظور کرنے والی اتھارٹی کو چنا۔
“یہ قتلِ عام ہے۔ اس کی وجہ بے توجہی ہے۔ موت کی اس لہر کے آگے فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی کی کاہلی اور سست رفتاری ہے۔ ادویات کی ٹیسٹنگ فضولیات کا ڈھیر ہے۔ میڈیسن کے ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں رینڈم ٹرائل، پلیسیبو اور کنٹرول جیسی بک بک کی جا رہی ہے۔ مریض موت کے منہ میں ہیں۔ گھسا پٹا ماڈل بند کیا جائے”۔
کریمر اس کی جگہ ایک اور تجویز دے رہے تھے، “ڈبل بلائنڈ سٹڈی کا طریقہ مہلک امراض کے لئے کارآمد نہیں۔ لوگ آج بیمار ہیں۔ ان کے پاس کھونے کو کچھ رہ ہی نہیں گیا۔ یہ تجربے کے چوہے بننے کو تیار ہیں”۔
ایکٹ اپ کا نعرہ تھا، “دوا جسم کے اندر اتاری جائے”۔
واشنگٹن اور نیویارک کی سڑکوں پر ایکٹ اپ کے ممبران منہ سے جھاگ اڑاتے اور ایف ڈے اے کے منتظمین کے پتلے جلاتے پھر رہے تھے۔ میڈیا اور پبلک پر اس تحریک کا بڑا اثر تھا۔
اور یہ اثر صرف ایڈز تک ہی نہیں رہا۔ اگر ایڈز کے مریض تقاضا کر رہے ہیں کہ ادویات اور علاج کے تجربے براہِ راست ان پر کئے جائیں تو پھر دوسرے امراض کے لئے کیوں نہیں؟ کینسر کے مریض کیوں نہیں؟”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولیم پیٹرز 1987 میں کینسر کی میگاڈوز تھراپی کے ٹرائل شمالی کیرولینا کی شہر ڈرہم میں کر رہے تھے۔ ایڈز یہاں تک نہیں پہنچا تھا۔ ایڈز ایکٹوسٹ کی آواز اور غصہ یہاں پر دور دراز کی آواز تھا۔ اپنے کام میں ڈوبے ولیم پیٹرز اندازہ نہیں کر سکتے تھے کہ یہ طوفان جلد ہی ان کے دروازے پر ہو گا۔
(جاری ہے)