کینسر کے خلاف جنگ میں ہونے والی سب سے بڑی اور اہم ترین تمباکو نوشی کے خلاف ہے۔ 1980 کی دہائی میں سگریٹ نوشی کے خلاف اقدامات نے کینسر کا شکار...
کینسر کے خلاف جنگ میں ہونے والی سب سے بڑی اور اہم ترین تمباکو نوشی کے خلاف ہے۔ 1980 کی دہائی میں سگریٹ نوشی کے خلاف اقدامات نے کینسر کا شکار ہو جانے والوں میں نمایاں کمی کی لیکن اس نے ایک اور اہم نکتہ نمایاں کر دیا۔
کینسر کے رسک فیکٹر کی شناخت کے شماریاتی طریقے کورریلیشن کا بتاتے ہیں، مکینزم کا نہیں۔ اور اس میں ایک حد تک پہلے سے لگائے گئے اچھے اندازے لازم ہیں۔ کیس کنٹرول سٹڈی کے لئے ماہرِ امراض کو پہلے سے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ سوال کیا پوچھا جا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستر کی دہائی میں سٹڈیز کے ایک سلسلے نے کینسر کی ایک قسم میسوتھیلیوما کا تعلق چند پیشوں سے آشکار کیا۔ بحری جہازوں میں کام کرنے والے، انسولیشن نصب کرنے والے، ائیرکنڈیشنگ نصب کرنے والے، کرائیسولائیٹ کی کانوں کے مزدور۔ اس سے جلد ہی اس ایجنٹ کا پتا لگ گیا جو اس کی مشترک وجہ تھا۔ یہ ایسبسٹوس تھا۔ جلد ہی قانون بنے۔ اس کا استعمال ختم ہوا اور ساتھ ہی میسوتھلیوما کا خطرہ بھی۔
اسی طرح 1971 میں ایک سٹڈی نے ایک اور غیرمتوقع کارسنوجن کا پتا دیا۔ یہ ایک مصنوعی ہارمونل دوا (DES) تھی۔ یہ حاملہ خواتین کو وقت سے پہلے بچے کی پیدائش روکنے کے لئے دی جاتی تھی۔ جن خواتین نے یہ لی تھی، ان کی بیٹیوں میں یوٹرس اور وجائنا کے کینسر کا تناسب بہت تھا۔ ڈی ای ایس لینے والی خواتین میں کینسر ایک جنریشن چھوڑ اگلی میں نمودار ہوا تھا۔
لیکن اگر یہ معلوم ہی نہ ہو کہ ایکسپوژر کس شے کا ہے؟ کیا کارسنوجن کو شماریاتی تجزیے سے ہٹ کر کسی مخصوص خاصیت سے پہچانا جا سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بروس ایمس برکلے میں بیکٹیریا کے ماہر تھے۔ وہ ایک مسئلے پر کام کر رہے تھے جب انہیں غیرمتوقع طور پر کیمیکل کارسنوجن کے لئے ایک ٹیسٹ مل گیا۔
وہ سالمونیلا نامی بیکٹیریا پر تحقیق کر رہے تھے۔ انہوں نے ماحول اور بیکٹیریا کی جینز کے تعلق میں ایک دلچسپ مشاہدہ کیا۔
بیکٹیریا میں گالیکٹوز نامی شوگر ہضم کرنے کی جینز ایسے ماحول میں بڑھنے کے لئے لازم ہیں جہاں پر یہ شوگر خوراک کے طور پر موجود ہو۔ ایک خاص میوٹیشن والے جین والے بیکٹیریا ایسے ماحول میں نشوونما پائیں گے جبکہ جن کے پاس یہ شوگر نہ ہو، وہ نہیں۔
ایمس نے دیکھا کہ سالمونیلا کی ایک قسم کو glactose کی خوراک دی جائے تو وہ بڑھ نہیں پاتی۔ لیکن کچھ وقت میں یہ والی جین میوٹیشن حاصل کر لیتی تھا۔ یہ صلاحیت حاصل کر لینے کے بعد ایک بیکٹیریا سے بڑھ کر ایک ننھی سی کالونی بن جاتی تھی۔ اس طرح کی جتنی کالونیاں بن جائیں، ان کی گنتی یہ بتا دیتی تھی کہ ایک تجربے میں میوٹیشن کی رفتار کتنی ہے۔
اگر ایک قسم کے کیمیکل کی موجودگی میں 6 کالونیاں بن جائیں، جبکہ دوسری قسم کی شے سے 60، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ دوسری شے میں جینز کو میوٹیٹ کروانے کی صلاحیت دس گنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایمس اب ہزاروں کیمیکلز پر یہ تجربات کر کے کیمیکل کیٹالاگ بنا سکتے تھے جو میوٹیشن کی رفتار میں اضافہ کرتے ہوں۔ یہ میوٹاجن ہیں۔ اور جب وہ یہ کیٹالاگ بنا رہے تھے تو انہیں نے ایک انتہائی اہم دریافت کی۔
“ایسے کیمیکل جو میوٹاجن ہوں، وہ کارسنوجن بھی ہوتے ہیں”۔
رنگوں سے اخذ کردہ کیمیکل، انسانوں میں طاقتور کارسنوجن ہیں۔ اور بیکٹیریا پر بھی یہ سینکڑوں کالونیاں بنا دیتے ہیں۔ ایکسرے بھی ایسا کرتی ہیں۔ بینزین اور نائیٹروسوگوانیڈ سے اخذ اشیا بھی، جن کے بارے میں معلوم تھا کہ یہ چوہوں میں کینسر کا سبب بنتی ہیں۔
ایمس کے ٹیسٹ کا کمال یہ تھا کہ نہ نظر آنے والے اور ناقابلِ پیمائش فیکٹرز کو اب ناپا جا سکتا تھا۔ یہ اب لیبارٹری کی پلیٹ پر بیکٹیریا کی کالونیوں کی صورت میں نظر آ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایمس کا یہ ٹیسٹ پرفیکٹ نہیں تھا۔ ہر معلوم کارسنوجن نے اس میں اچھا سکور نہیں کیا۔ ڈی ای ایس اور ایسبسٹوس سے بیکٹیریا کو خاص فرق نہیں پڑا۔ (تمباکو کے دھویں کے کیمیائی اجزا سے بیکٹیریا کی میوٹیشن نمایاں تھی۔ سگریٹ ساز اداروں کی تحقیقی ٹیم نے اپنے حق میں ایویڈنس لینے کے لئے یہ تجربات کئے تھے۔ اپنی “ناکامی” پر انہیں چھوڑ دیا تھا)۔
لیکن اپنی کمزوری کے باوجود ایمس کے ٹیسٹ کینسر کے بچاوٗ کی طرف میکانیکی اپروچ میں اہم پیشرفت تھے۔ کارسنوجن کا ایک مشترک اور منفرد فیچر یہ تھا کہ یہ جینز میں تبدیلی لاتے تھے۔
ایمس اس کی گہری وجہ تلاش نہیں کر سکے۔ انہیں اندازہ نہیں ہو سکا کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ میوٹیشن کا تعلق کینسر سے ہے۔ لیکن انہوں نے یہ دکھا دیا کہ کارسنوجن کو تجرباتی طور پر تلاش کیا جا سکتا ہے۔ کینسر زدہ ہو جانے کے بعد مریضوں کے تجزیے سے ہی نہیں بلکہ اس سے قبل ہی ایسے کیمیکل شناخت کئے جا سکتے ہیں جو میوٹیشن کرتے ہیں اور یہ سادہ اور خوبصورت عملی بائیولوجی تھی۔
(جاری ہے)