سن 1775 میں پرسیوال پوٹ اپنے کلینک میں سکروٹم کینسر کے واقعات دیکھ رہے تھے۔ پوٹ ایک باریک بین شخص تھے۔ ان کو پہلے یہ خیال آیا کہ ان ٹیومرز ...
سن 1775 میں پرسیوال پوٹ اپنے کلینک میں سکروٹم کینسر کے واقعات دیکھ رہے تھے۔ پوٹ ایک باریک بین شخص تھے۔ ان کو پہلے یہ خیال آیا کہ ان ٹیومرز کو ختم کرنے کیلئے سرجیکل پروسجیر بنایا جائے۔ لیکن ان کے لندن میں کلینک میں جس طرح مریض آتے رہے، انہوں نے ایک بات نوٹ کرنا شروع کی۔ ان مرضوں میں تقریباً تمام چمنیاں صاف کرنے والے تھے۔ یہ غریب اور یتیم لڑکے تھے جنہیں چمنی پر چڑھایا جاتا تھا تا کہ اس سے راکھ اور کالک صاف کر دیں۔ بہت کم عمری میں یہ برہنہ اور تیل میں لتھڑے ہوئے اپنا کام کرتے تھے۔ اس نے انہیں چونکا دیا۔ انہوں نے لکھا۔
“یہ چمنی صاف کرنے والوں کا کینسر ہے۔ اس میں تکلیف دہ اور بدصورت زخم بنتا ہے۔ یہ بلوغت کے بعد ہی ہوتا ہے۔ اس وجہ سے مریض اور سرجن اسے جنسی بیماری سمجھتے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دور کے برطانیہ میں صفائی کرنے والوں کو بیماریوں سے لدا ہوا سمجھا جاتا تھا۔ اور ان کے گندے جسم پر ایک بدصورت زخم کو جنسی بیماری سمجھا آسان تھا۔ اس کے لئے پارے کے کیمیکل دئے جاتے تھے۔ لیکن پوٹ کچھ اور ڈھونڈ رہے تھے۔ “اگر یہ جنسی بیماری ہے تو صرف ایک ہی پیشے کے افراد کو کیوں ہوتی ہے؟”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی کوئی تشفی بخش وضاحت ان کے پاس نہیں تھے۔ آپریشن کا نیا طریقہ ڈھونڈنے کے بجائے انہوں نے اس بیماری کی وجہ ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا۔
پوٹ نے نوٹ کیا کہ صفائی کرنے والے گھنٹوں تک راکھ اور چکنائی کے درمیان رہتے ہیں۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ کالک کے نہ نظر آنے والے ذرات ان کی جلد کے نیچے دنوں تک رہتے ہیں اور کینسر کا یہ زخم جلد سے پھوٹتا ہے۔ ان مشاہدات کو سامنے رکھتے ہوئے، انہیں شک ہوا کہ چمنی کی کالک کا جلد کے نیچے رہ جانا سکروٹل کینسر کی ممکنہ وجہ نظر آتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوٹ پاڈوا کے ڈاکٹر رامازینی کا کام آگے بڑھا رہے تھے۔ رامازینی نے 1713 میں ایک بہت ہی اہم کتاب لکھی تھی جس میں انہوں نے درجنوں بیماریوں کا تجزیہ ان کے پیشوں کے ساتھ کیا تھا۔ اور معلوم کیا تھا کہ کچھ بیماریاں کچھ پیشوں میں زیادہ ہیں۔ رامازینی نے انہیں “مصنوعی بیماریاں” کہا تھا۔ پوٹ نے کہا کہ “کالک سے ہونے والا کینسر” بھی ایسی ہی بیماری ہے۔ اور اس کا ایجنٹ دھویں کی کالک ہے۔ پوٹ کے پاس اس کی بیان کرنے کی اصطلاح نہیں تھی۔ انہوں نے “کارسنوجن” (کینسر کا باعث بننے والا ایجنٹ) دریافت کر لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوٹ کے کام کے دور رس نتائج تھے۔ اگر کالک کینسر کا موجب بنتی تھی اور اس کا مطلب یہ کہ جالینوس کے پرسرار سیاہ سیال کا اس سے تعلق نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ دو باتیں درست تھیں۔
پہلا یہ کہ کینسر کی وجہ اندرونی سیالوں کا غیرمتوازن ہونا نہیں بلکہ بیرونی ایجنٹ تھا۔ یہ اپنے وقت میں اس قدر ریڈیکل خیال تھا کہ پوٹ خود اسے تسلیم کرنے سے ہچکچا رہے تھے۔ (بطور ڈاکٹر، یہ ان کی تمام تربیت کے خلاف تھا)۔
دوسرا یہ کہ اگر بیرونی شے کی وجہ سے کینسر تھا تو اس کا مطلب یہ نکلتا تھا کہ اس سے بچا جا سکتا تھا۔ اور اس کے لئے جسم کے سیال نکالنے کی ضرورت نہیں تھی۔ چونکہ یہ بیماری انسان کی بنائی ہوئی تھی تو اس کا حل بھی انسان بنا سکتا تھا۔
کارسنوجن کو ہٹا دیں تو کینسر ہونا بند ہو جائے گا!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سادہ اور گہری وضاحت اور خوبصورت خیال تھا لیکن اسے کرنا بہت مشکل تھا۔ اٹھارہویں صدی کا برطانیہ فیکٹریوں، کوئلے اور چمنیوں کا ملک تھا۔ اور اس کا مطلب یہ تھا کہ ان چمنیوں کی صفائی کی جانی تھی اور چائلڈ لیبر اس کا سستا طریقہ کار تھا۔
چار سے پانچ سال کے یتیم بچے بھی چمنی صاف کرنے والے ماہر کے ساتھ لگا دئے جاتے تھے۔
اٹھارہویں صدی کے آخر میں سیاسی ہوا کا رخ بدلا۔ لندن میں چمنی صاف کرنے والے بچوں کی بری حالت منظرِ عام پر آئی اور برطانیہ کے سماجی اصلاح پسندوں کی کوششوں سے 1788 میں پارلیمنٹ میں قانون منظور ہوا جو کہ چمنی سویپر ایکٹ تھا۔ اس میں ماسٹر سویپر کے لئے آٹھ سال سے کم عمر کے بچے کو کام پر لگانا غیرقانونی قرار پایا۔ 1837 میں یہ عمر چودہ سال کر دی گئی۔ 1840 میں سولہ سال۔ 1875 میں نوجوان لڑکوں کے چمنی پر چڑھنے پر مکمل پابندی عائد ہو گئی اور اس پیشے میں احتیاطی اقدامات کی کڑی نگرانی ہونے لگی۔
پوٹ یہ دیکھنے کے لئے زندہ نہیں رہے۔ ان کا انتقال 1788 میں نمونیا سے ہو گیا تھا۔ لیکن چند دہائیوں میں چمنی کی کالک کی صفائی کرنے والوں کو ہونے والے سکروٹل کینسر کی کالک کی صفائی ہو چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: دھویں کی کالک کیمیکل کا مکسچر ہے۔ جیسا کہ بعد میں دریافت ہوتا گیا، ان میں کئی کارسنوجن پائے جاتے تھے۔
(جاری ہے)