بیلار اور سمتھ نے کینسر کی شماریاتی رپورٹ میڈیکل جرنل میں شائع کی۔ اس کے مطابق میں 1962 سے 1985 کے درمیان کینسر سے ہونے والی اموات میں ساڑھے...
بیلار اور سمتھ نے کینسر کی شماریاتی رپورٹ میڈیکل جرنل میں شائع کی۔ اس کے مطابق میں 1962 سے 1985 کے درمیان کینسر سے ہونے والی اموات میں ساڑھے آٹھ فیصد “اضافہ” ہوا تھا۔ یہ رپورٹ اونکولوجی کے لئے تہلکہ خیز تھی۔
اس اضافے کی سب سے بڑی وجہ تمباکو نوشی تھی جس کی وجہ سے پھیپھڑے کے کینسر میں ہونے والی اموات میں بہت اضافہ تھا۔
اس رپورٹ سے ایک چیز خوفناک طور پر واضح تھی۔ امریکہ میں کینسر کی تحقیق اور علاج پر بھاری خرچ کیا جا رہا تھا۔ اور کینسر کی شرحِ اموات کو فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ اس رپورٹ میں ان
ہوں نے لکھا۔
“پیتیس سال سے بے تحاشا محنت کی جا رہی ہے اور ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کینسر کے علاج کی صلاحیت بہتر ہو۔ اور اگر اس کا پیمانہ سب سے بنیادی شے یعنی “موت” کو بنایا جائے تو اس پر اثر نہیں۔ ہم کینسر کے خلاف جنگ ہار رہے ہیں۔ کچھ نایاب اقسام کے کینسرز (جیسا کہ بچوں کا لیوکیمیا یا ہوجکن) کے علاج میں خاطرخواہ ترقی ہوئی ہے۔ تکلیف کم کرنے والی ادویات میں بہتری آئی ہے۔ پروڈکٹو برسوں میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اگر مجموعی طور پر ہم علاج کے لئے کی جانی والی اس قدر زبردست محنت کا نتیجہ دیکھیں تو یہ ایک qualified failure ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینسر کے خلاف جنگ میں ناکامی کا اعلان کر کے بیلار نے ایک اور جنگ چھیڑ دی تھی۔ یہ کینسر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھی۔ کینسر انسٹیٹیوٹ کے خلاف تھی۔ کینسر کے علاج کی انڈسٹری کے خلاف تھی۔ بہت سے ڈاکٹروں نے اس تجزیے کو رد کر دیا۔ انہیں ایک شکست خوردہ، سنکی، مایوس انسان کہا گیا۔
میڈیکل جرائد میں اس پیپر کے جوابات کی قطار لگ گئی۔ اس تجزیے کے تجزیے شروع ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نقادوں کے ایک گروپ کا کہنا تھا کہ یہ تجزیہ تاریک تصویر اس لئے نہیں دکھاتا کہ کینسر کا علاج غیرموثر ہے بلکہ اس لئے کہ اس کا اطلاق درست نہیں ہو رہا۔ کیموتھراپی بہت پیچیدہ عمل ہے۔ اتنا کہ زیادہ تر اونکولوجسٹ فل ڈوز تھراپی سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے ایک سروے کے نتائج پیش کئے جو ایک سال پہلے ہوا تھا۔ صرف ایک تہائی اونکولوجسٹ بریسٹ کینسر کا درست کمبی نیشن پوری طرح سے دے رہے تھے۔ “زیادہ جارحانہ اور زیادہ جلد پولی کیموتھراپی سے ہر سال دس ہزار جانیں بچائی جا سکتی ہیں”۔ یہ ایک نقاد کا مضمون تھا۔
یہ بات درست تھی کہ بہت سے ڈاکٹر کیموتھراپی کی پوری ڈوز نہیں دے رہے تھے۔ لیکن کیا اس کو زیادہ دینے سے سروائیول بہتر ہو جاتی؟ یہ ٹیسٹ نہیں کیا گیا تھا۔
کئی اقسام کے کینسرز (جیسا کہ چھاتی کا کینسر) میں شاید یہ درست ہوتا لیکن زیادہ تر میں نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور نقاد، بریسلو، کا کہنا تھا کہ “بیلار اور سمتھ نے صرف ایک فیکٹر لیا ہے جو عمر کو ایڈجسٹ کر کے شرحِ اموات کا ہے۔ یہ کامیابی اور ناکامی کا واحد معیار نہیں۔ انہوں نے اس کو ضرورت سے زیادہ سادہ کر دیا ہے۔ صرف ایک عدد کو ترقی کا معیار بنا دینے سے جو تاثر پیش کیا گیا ہے، وہ حقیقت کی درست عکاسی نہیں کرتا۔
اگر کیموتھراپی ایک پانچ سالہ بچے کا علاج کر دیتی ہے اور وہ ستر سال کی عمر تک زندہ رہتا ہے تو ہم نے اس کو جینے کے لئے 65 مزید برس دے دئے ہیں۔ جبکہ پینسٹھ سالہ شخص پر کیموتھراپی شاید اسے صرف پانچ اضافی برس دے۔ لیکن ان کا پیمانہ ان دونوں میں تفریق نہیں کر سکتا۔ لمفوما کا علاج کی جانے والی نوجوان خاتون کو ملنے والے پچاس برس کینسر کے خلاف ہونے والی ترقی ہے۔ اگر زندگی کے اضافی سالوں کو پیمانہ بنایا جائے تو نتائج کچھ اور ہوں گے۔ یہ بتائیں گے کہ ہم جنگ ہار نہیں رہے، جیت کی طرف جا رہے ہیں”۔
بریسلو کا نکتہ یہ نہیں تھا کہ کیا پیمانہ استعمال کیا جانا چاہیے بلکہ یہ کہ پیمانے معروضی نہیں ہوتے، موضوعی ہوتے ہیں۔ بیماری کی پیمائش بنیادی طور پر ہی موضوعی سرگرمی ہے۔
کیرنز یا بیلار یا کوئی بھی اور سٹڈی یہ بتا سکتی ہیں کہ کتنی زندگیاں بچائی گئیں یا گنوائی گئیں۔ لیکن کیا یہ سب سرمایہ کاری “اچھا سودا” تھا؟ اس کے لئے ہمیں زندگی کی “قیمت” پر سوال کرنا پڑتا ہے۔
پانچ سال کے بچے کے اضافی ساٹھ سال اور ساٹھ سالہ مریض کے اضافی پانچ سال کا موازنہ کیا بھی کیسے جائے؟ کیا ان کی اہمیت برابر ہے؟ یا پھر کیا بچے کی زندگی کے سال بارہ گنا زیادہ قیمتی ہیں؟ کیوں؟
کوئی بھی پیمانہ بالآخر ہمارے خیالات اور تصورات کا عکس ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیلار کو فلسفانہ نکات پر قائل کیا جا سکتا تھا لیکن ان کا ایجنڈا عملی تھا۔ جیسا کہ کیرنز نے بھی نشاندہی کی تھی، آبادی میں کسی بھی بیماری کی شرحِ اموات روکنے کا کامیاب طریقہ بچاوٗ کا تھا۔ اور حکمتِ عملی کا یہ پہلو وہ تھا جس کی طرف توجہ بالکل بھی نہیں تھی۔
“کینسر کے خلاف جنگ” میں اسی فیصد سے زائد بجٹ علاج کی حکمت عملی کی تحقیق کے لئے تھا۔
(بچاوٗ کے لئے بجٹ کو بڑھا کر 1992 تک تیس فیصد تک لے آیا گیا۔ یہ ساٹھ کروڑ ڈالر سالانہ کا بجٹ تھا)۔
کینسر انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر نے 1974 میں جو لائحہ عمل ترتیب دیا تھا اس میں کینسر سے بچاوٗ کا ذکر نہیں تھا۔
نجی تحقیق میں بھی ایسا ہی تھا۔ کینسر سے بچنا کیسے ہے؟ بہت سے ڈاکٹروں کے پاس اس بارے میں نہ ہی کوئی آئیڈیا تھا، نہ ہی تھیوری اور نہ ہی اس بارے میں کچھ خاص معلومات تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا کیوں تھا؟ بیلار کا کہنا تھا کہ یہ “سائنس سے امید کے عہد” کی بائی پراڈکٹ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسویں صدی کی وسطی دہائیاں سائنس سے امید کا عہد رہا ہے۔ نت نئے علاج، تعمیری اور تخریبی ٹیکنالوجیاں، خلا کے سفر، چاند پر قدم۔ یہ وہ دور تھا جب لگتا تھا کہ سب کچھ ممکن ہے۔ سب کچھ ہمارے اختیار میں ہے۔ گارب کی 1950 کی دہائی میں مشہور ہونے والی کتاب “کینسر کا علاج” نے کینسر کے مستقبل کی جو پیشگوئیاں کی تھیں، آج انہیں پڑھنا باعثِ حیرت ہو گا۔ لاسکر کی تنظیم اور “کینسر کے خلاف جنگ” کے پراجیکٹ کے وقت عام یقین تھا کہ اگلے دس سال میں یہ مسئلہ حل کر لیا جائے گا۔ فاربر جیسے محققین کو اس حدف میں شک نہیں تھا۔ “جادو کی گولی” ڈھونڈ لینے کی امید ہر ایک کو تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جان بیلار نے ہمیں اجتماعی طور پر شماریاتی شواہدات کی اہمیت کی یاددہانی کروائی۔ روز کی خبریں یہ جاننا مشکل کر دیتی ہیں کہ ہو کیا رہا ہے۔ اس شور کے دھندلے منظر سے ہٹ کر کیرنز اور بیلار کا تجزیہ یہ بتا رہا تھا کہ تحقیق کی ترجیحات میں ترمیم کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی بیماری کا مقابلہ کرنے کا سب سے موثر ہتھیار اس سے بچاوٗ ہے۔ اور کینسر سے بچاوٗ کے موثر طریقے ڈھونڈنے کی تاریخ پرانی نہیں۔ اور اس کی کہانی اٹھارہویں صدی کے برطانیہ کی چمنیوں کی کالک سے شروع ہوتی ہے۔
(جاری ہے)