روزانہ کی خبریں پڑھنے اور سننے کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ روز کی خبریں یہ چھپا دیتی ہیں کہ ہو کیا رہا ہے۔ اور یہ جتنی زیادہ ہوں، منظر اتنا زی...
روزانہ کی خبریں پڑھنے اور سننے کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ روز کی خبریں یہ چھپا دیتی ہیں کہ ہو کیا رہا ہے۔ اور یہ جتنی زیادہ ہوں، منظر اتنا زیادہ دھندلا جاتا ہے۔ کینسر کے خلاف جنگ میں یہی مسئلہ درپیش تھا۔ روز کی خبریں بہت تھیں۔ نومبر 1985 میں ہارورڈ کے بائیولوجسٹ جان کیرنز اسی بات کا پتا لگانا چاہتے تھے کہ کینسر ریسرچ میں آخر ہو کیا رہا ہے۔
کیا “کینسر کے خلاف جنگ” میں صرف ہونے والے بھاری وسائل اور محنت رنگ لا رہے تھے؟ کیا اس عفریت کو قابو کرنے کی سمت میں ترقی ہو رہی تھی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ریاست میں سے انہوں نے رجسٹری حاصل کی جس میں موت کی وجوہات کا شماریاتی ریکارڈ تھا، جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے رکھا جاتا تھا۔
انہیں امید تھی کہ اس ریکارڈ کا تجزیہ دنوں یا ہفتوں کی خبروں سے ہٹ کر دہائیوں میں ہونے والی تصویر کو واضح کر دے گا۔
کیرنز بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ہونے والی ترقی میں دلچسپی رکھتے تھے اور انہوں نے اس کو چند کیٹگریز میں تقسیم کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
علاج والی پہلی کیٹگری کیموتھراپی تھی۔ انہوں نے تخمینہ لگایا کہ اس کی مدد سے سالانہ دو سے تین ہزار زندگیاں بچائی جا رہی ہیں۔ اکیوٹ لیوکیمیا والے سات سو بچے۔ ایک ہزار لوگ جن کو ہوجکن ہے، تین سو مرد جنہیں خصیوں کا ایڈوانسڈ سٹیج کا کینسر ہے۔ کوریوکارسینوما کا شکار خواتین۔
ایک اور کیٹگری اضافی کیموتھراپی کی تھی، جس کو سرجری کے بعد کیا جاتا ہے۔ اس سے بچنے والی زندگیاں دس سے بیس ہزار سالانہ تھیں۔
تیسری کیٹگری جلد تشخیص کے لئے ٹیسٹ تھے جیسا کہ پیپ سمیئر یا میموگرام۔ ان کی وجہ سے دس سے پندرہ ہزار زندگیاں سالانہ بچتی تھیں۔
اس طرح کل ملا کر بچنے والی زندگیاں 35000 سے 40000 سالانہ تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کینسر کی تشخیص سال میں دس لاکھ نئے کیسز کی تھی، جبکہ اموات پانچ لاکھ سالانہ کی تھی۔
یعنی کہ جن مریضوں میں کینسر کی تشخیص ہوئی، ان میں پانچ فیصد سے کم تھراپی اور سکریننگ سے مستفید ہوتے ہیں۔
یہ اچھے اعداد و شمار نہیں تھے اور اس پر نہ ہی کیرنز کو کوئی تعجب تھا اور نہ ہی کسی بھی ماہرِ امراض کو ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میڈیسن کی تاریخ میں کسی بھی اہم بیماری کو صرف علاج کے پروگرامز کے ذریعے قابو نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر، تپدق میں اینٹی بائیوٹکس کی آمد سے پہلے کئی دہائیوں سے کمی ہو رہی تھی۔ کسی دوا سے زیادہ اس کی وجہ شہری انتظامات کی تبدیلیاں تھیں۔ بہتر غذا، نکاسی آب اور صفائی کے انتظامات کا اس میں بڑا کردار تھا۔ پولیو اور چیچک کو ویکسین نے شکست دی تھی۔
کیرنز نے لکھا، “ملیریا، ہیضہ، ٹائفس، تپدق، سکروی، پلیگرا میں شرحِ اموات اس لئے کم ہوئی ہے کہ ہم نے یہ سیکھا ہے کہ ان “بچنا” کیسے ہے۔ صرف علاج کی طرف توجہ اور وسائل مرکوز رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ماضی کا انکار کر رہے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیرنز نے پالیسی سازوں کی توجہ تو حاصل کی لیکن اس میں ایک اہم چیز موجود نہیں تھی۔ اس میں ایک شماریاتی پنچ لائن نہیں تھی۔
سوال یہ تھا کہ “کیا 1985 میں کینسر سے ہونے والی اموات 1975 سے کم ہیں؟”۔
مئی 1986 میں ہارورڈ کے جان بیلار اور ایلین سمتھ نے اس سوال کے جواب کے لئے تجزیہ نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع کیا۔
یہ تجزیہ کرنے کے لئے دو اہم چیزوں کا خیال رکھا گیا تھا۔ کینسر کے خلاف کامیابی کی پانچ سال کے سروائیول ریٹ سے پیمائش کی جاتی تھی۔ بیلار اور سمتھ نے اس کو ترک کر دیا تھا۔ (اگر کچھ بھی اور نہ بدلے تو جلد تشخیص سروائیول ریٹ بڑھا دے گی)۔ دوسرا اہم کام انہوں نے عمر کے حساب سے ایڈجسٹمنٹ سے کیا۔ اگر آبادی میں اوسط عمر زیادہ ہو جائے تو کینسر اور اس سے اموات خود ہی زیادہ ہو جائیں گی اور نتائج خراب دکھائی دیں گے۔ اس کو ایڈجسٹ کرنے کے لئے عمر کی بریکٹ بنا کر موازنہ کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیلار اور سمتھ کا آرٹیکل مئی 1986 میں شائع ہوا اور اس کے نتائج نے اونکولوجی کی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔
(جاری ہے)