Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

اومی کرون کا سنگین چیلنج

(شاہد افراز خان) عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ نوول کورونا وائرس کی نئی قسم اومی کرون میں متعدد تغیرات پائے گئے ہیں جو اس کی انفیکشن ا...

(شاہد افراز خان) عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ نوول کورونا وائرس کی نئی قسم اومی کرون میں متعدد تغیرات پائے گئے ہیں جو اس کی انفیکشن اور مرض پیدا کرنے کی صلاحیت پر اثرانداز ہو سکتے ہیں، لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اومی کرون دیگر اقسام کے وائرس کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہے، اور کیا یہ مزید سنگین وبائی صورتحال اور امراض کی پیچیدگیوں کا سبب بنے گا یا نہیں۔اس سے قبل ڈبلیو ایچ او نے کہاتھا کہ اومی کرون شدید انفیکشن کا خطرہ پیدا کر سکتا ہے، لیکن معلومات محدود ہیں۔ موجودہ صورتحال میں دنیا اومی کرون کے بارے میں قدرے فکرمند ہے اور مختلف ممالک کی جانب سے متعدد افریقی ممالک پر سفری پابندیاں عائد کرنے سمیت انسدادو با کے دیگر اقدامات میں تیزی لائی گئی ہے۔ پریشانی کی بات یہ بھی ہے کہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس متغیر وائرس کے خلاف ویکسین کتنی موثر ہے اور ماہرین ابھی تک واضح نہیں ہیں کہ آیا موجودہ اینٹی باڈیز اومی کرون پر موئثر رد عمل ظاہر کر پائیں گی ، جس میں 32 سپائیک پروٹین میوٹیشنز ہیں، جو پہلے پائے جانے والی مختلف اقسام سے زیادہ ہیں۔

یہ بھی تشویش کن امر ہے کہ مختلف ممالک میں نئے متغیر وائرس سے متاثرہ کئی کیسز سامنے آ چکے ہیں اور ممالک کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اومی کرونکی شناخت سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں ہوئی تھی یہی وجہ ہے کہ جنوبی افریقہ سے کئی ممالک نے پروازیں معطل کر دی ہیں جبکہ دوسرے جنوبی افریقی ممالک پر بھی متعدد ممالک کی جانب سے سفر ی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ماہرین نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ نئی قسم ڈیلٹا کی مختلف اقسام سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلے گی اور متاثرہ افراد میں سنگین علامات کا سبب بنے گی، اومی کرون سے وبائی صورتحال کی شدت میں بھی اضافہ ہو گا جبکہ کئی یورپی ممالک میں حالیہ دنوں پہلے ہی نئے مصدقہ کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا تھا ، ایسے میں یہ نیا متغیر وائرس ایک نیا چیلنج بن کر ابھرا ہے ۔یہاں اصل بات یہی ہے کہ وبائی صورتحال کے خلاف صحیح معنوں میں متحد ردعمل سامنے آئے کیونکہ وائرس کے خلاف جنگ واضح طور پر ایک طویل عالمی جنگ ہے۔وائرس تغیر کے حوالے سے موجودہ شواہد کی بنیاد پرغیر یقینی عوامل بدستور نمایاں ہیں کہ آیا یہ وائرس مزید تبدیل ہو گا یا نہیں اور یہ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کب کوئی ایسا جامع طبی علاج تلاش کیا جا سکتا ہے جو سامنے آنے والے وائرس کی کسی بھی قسم کے خلاف موثر ہو۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ وبا کی روک تھام اور کنٹرول کے اقدامات پر سختی سے عمل درآمد وائرس ٹرانسمیشن کے چینلز کو کاٹنے کا اب تک موثرترین طریقہ ثابت ہوا ہے۔اس کی سب سے عمدہ مثال ہمارے پاس چین کی ہے۔چینی عوام کو انسداد وبا کی ترغیب دے کر انہیں وبا کے خلاف جنگ میں فعال طور پر شریک کرنا ، چین میں وبائی صورتحال پر موئثر قابو پانے کی کلید ہے۔اس کے برعکس دیگر دنیا میں اکثر ممالک کے عوام نے جہاں انسداد وبا کے ضوابط کو ایک قید کی مانند تصور کیا تو اکثر نے انہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں قرار دیا ،جس کا نتیجہ وبا کی بدستور سنگینی کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔بالخصوص مغربی ممالک کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو شعور دلائیں کہ انسداد وبا کے اقدامات اپنانا شخصی آزادی کے لیے خطرہ نہیں بلکہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ اگر تمام ممالک پہلے ہی چینی ماڈل کی تقلید کرتے ہوئے انسداد وبا کی ٹھوس پالیسیاں اپناتے تو اس وبا کو دنیا بھر میں کافی حد تک قابو میں رکھا جا سکتا تھا، جس سے متعدد وسائل کی بھی بچت ہو جاتی جنہیں آج وبا کی روک تھام و کنٹرول کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا تھا۔ ایک کٹھن جنگ کے دور میں ذاتی آزادی کو عارضی طور پر قربان کرنا ،نہ صرف کسی ایک انفرادی ملک یا خطے بلکہ دنیا بھر کے مفاد میں ہے اور وائرس کے خلاف جنگ میں فتح کے لیے ضروری ہے۔

دوسری جانب اومی کرون کا ظہور وبا کی روک تھام کی عالمی کوششوں کے لیے نئے چیلنجز لے کر آیا ہے۔ ماہرین صحت کے نزدیک امیر ممالک میں ویکسین کی ضرورت سے زیادہ ذخیرہ اندوزی ، ویکسین کی غیر مساوی تقسیم کا باعث بنی ہے جو اس نئے وائرس کا ایک اہم سبب ہے۔دنیا میں اب بھی بے شمار لوگ ایسے ہیں جن کی ویکسین تک بدستور رسائی نہیں ہے لہذا اومی کرون کو عالمی ویکسینیشن کی سست رفتار اور کم شرح کا بھی ایک نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ کم آمدنی والے ممالک میں صرف تین فیصد افراد کی مکمل ویکسینیشن کی جا سکی ہے جبکہ بلند یا متوسط بالا آمدنی والے ممالک میں یہ شرح ساٹھ فیصد سے بھی زائد ہے۔یہاں بھی چین نے ویکسین کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے غیر معمولی اقدامات اپنائے ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، چین کووڈ۔19 ویکسین کا دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ویکسین ٹریڈ ٹریکر سے پتہ چلتا ہے کہ چین نے 31 اکتوبر تک 1.33 بلین سے زائد ویکسین کی خوراکیں برآمد کی ہیں، جو عالمی سطح پر مجموعی تعداد کا 46 فیصد ہے۔چائنا انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ کوآپریشن ایجنسی کے مطابق یہ تعداد حالیہ دنوں مزید بڑھ کر اب1.8 بلین تک پہنچ چکی ہے۔چین کے بعد یورپی یونین دوسرے نمبر پر ہے، جہاں 876.5 ملین خوراکیں برآمد کی گئی ہیں اور امریکہ 300.8 ملین کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔یوں ان دونوں کا عالمی برآمدات میں مجموعی تناسب بالترتیب 30.3 فیصد اور 10.4 فیصد ہے۔

دولت مند ممالک نے ویکسین زخیرہ اندوزی کے علاوہ ویکسین تعاون کے عالمی منصوبے کووایکس کو بھی ویکسین عطیہ کرنے یا دوسرے ممالک کو براہ راست ویکسین دینے کے اپنے وعدے پورے نہیں کیے ہیں جس سے صورتحال مزید ابتر ہوئی ہے۔ڈبلیو ایچ او کے منصوبے کے مطابق رواں سال کے اواخر تک ہر ملک کی کم از کم 40 فیصد آبادی کی ویکسینیشن لازم ہے، 2022 کے وسط تک ویکسینیشن کی شرح 70 فیصد تک پہنچ جانی چاہیے ، لیکن اس ہدف کا حصول فی الحال مشکل دکھائی دے رہا ہے۔انسانیت کی بقا کی خاطر نوول کورونا وائرس کے خلاف یہ جنگ جیتنے کے لیے بین الاقوامی برادری کو جہاں یکجہتی کی شدید ضرورت ہے وہاں تمام ممالک کو کھلے رویوں سے ویکسین تعاون کو آگے بڑھانا چاہے اور ویکسین تحفظ پسندی سے گریز کرنا لازم ہے ،ساتھ ساتھ انسانیت کے بہترین مفاد میںانسداد وبا کے مضبوط ترین اقدامات اپنانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔


تحریر(شاہد افراز خان)

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔