ہگنز نے سوال کیا تھا کہ “کیا ٹیسٹوسٹرن کی کمی کینسر پروسٹیٹ کینسر کو ختم کر سکتی ہے”۔ اس وقت کے عام خیال کے مطابق اس کا جواب نفی میں ہونا چ...
ہگنز نے سوال کیا تھا کہ “کیا ٹیسٹوسٹرن کی کمی کینسر پروسٹیٹ کینسر کو ختم کر سکتی ہے”۔ اس وقت کے عام خیال کے مطابق اس کا جواب نفی میں ہونا چاہیے تھا لیکن انہوں نے تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس کے لئے انہوں نے کینسر والے کتوں کو خصی کیا۔ اس کا مطلب یہ کہ ان کے کینسر کے خلیات تک ٹیسٹوسٹرن نہیں پہنچے گا۔ چند ہی دنوں میں ٹیومر چلا گیا!!
اگر پروسٹیٹ کے عام خلیات کا انحصار اس ہارمون پر تھا تو کینسر والے خلیات تو اس کے دیوانے تھے۔ اس ہارمون کا چلے جانا ایک بہت ہی طاقتور علاج ثابت ہوا تھا۔
“لازمی نہیں کہ کینسر بالکل بے قابو اور آزاد ہی ہو۔ اس کے بڑھنے میں ہارمون کے فنکشن کا کردار بھی ہو سکتا ہے”۔ ہگنز نے لکھا۔
عام خلیات کی بڑھوتری اور کینسر کے بڑھنے کا تعلق اس سے کہیں قریبی تھا جتنا پہلے تصور کیا جاتا تھا۔ کینسر کو ہمارا اپنا جسم کھلا پلا سکتا اور پال سکتا ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوش قسمتی سے، پروسٹیٹ کینسر کے خلیوں کو ختم کرنے کا واحد طریقہ خصیوں کو نکال دینا ہی نہیں تھا۔ ہگنز نے کہا کہ اگر مردانہ ہارمون کو ختم کرنے کے بجائے کینسر کو دھوکا دیا جائے کہ یہ مادہ جسم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایڈورڈ ڈوزی ایک بائیوکیمسٹ تھے جنہوں نے 1929 میں حاملہ خواتین کا سینکڑوں گیلن پیشاب اکٹھا کر کے اس میں سے چند ملی گرام ہارمون کشید کیا تھا۔ یہ ایسٹروجن تھا۔ اس کے بعد اس ہارمون کو حاصل کرنے کی بہت طریقوں سے کوشش کی گئی تھی جس میں سے دو زیادہ کامیاب رہی تھیں۔ ایک سنتھیٹک طریقے سے بنی ڈرگ ڈی ای ایس تھی جبکہ دوسرا پریمارین تھی جس کو حاملہ گھوڑی سے حاصل کیا جاتا تھا۔ ان کو نسوانی بیماریوں کے علاج کے لئے مارکیٹ کیا جاتا تھا۔
ہگنز کو جو خیال سوجھا تھا وہ یہ کہ اس کو انجیکٹ کر کے کینسر کے مریضوں میں ٹیسٹوسٹیرن کی پیداوار روکی جا سکے۔ اس تھراپی نے کام کیا اور اس کے سائیڈ ایفیکٹ بھی معمولی تھے۔ اس سے پروسٹیٹ کینسر ٹھیک نہیں ہوا۔ یہ چند ماہ میں واپس آ جاتا تھا۔ لیکن یہ ثابت ہو گیا کہ ہارمون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کینسر پر فرق ڈال سکتی ہے۔ کینسر کے علاج کے لئے بلاتخصیص سسپلاٹن یا نائیٹروجن مسٹرڈ جیسے خلیاتی زہر انڈیلنے کے علاوہ بھی حکمتِ عملی اپنائی جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہگنز نے مردانہ ہارمون اور پروسٹیٹ کینسر کا تعلق تلاش کیا تھا، اس سے ایک اور سوال پیدا ہوتا تھا۔ ایسٹروجن خواتین میں اووری سے پیدا ہوتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ ہارمون چھاتی کے کینسر کا ایندھن ہو؟
ایک اور غیرحل شدہ مسئلہ “بیٹسن کا معمہ” تھا۔ کچھ خواتین میں اووری نکال دینے سے چھاتی کا کینسر سکڑ جاتا تھا جبکہ کچھ میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ ایسا کیوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہگنز کے ساتھ کام کرنے والے نوجوان کیمسٹ ایلوڈ جینسن تھے جو ایسٹروجن کی فزیولوجی پر کام کر رہے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ ہارمون عام طور پر ٹارگٹ خلیے میں کسی ریسپٹر کے ساتھ چپک کر کام کرتے تھے لیکن ایسٹروجن کا ریسپٹر نہیں مل رہا تھا۔ 1968 میں تابکار ہارمون سے کئے گئے تجربے سے انہوں نے یہ ریسپٹر تلاش کر لیا۔ یہ مالیکول ایسٹروجن کے ساتھ چپکتا تھا اور خلیے کو اس کا سگنل بھیجتا تھا۔
جینسن کا سوال تھا کہ “کیا چھاتی کے کینسر کے خلیات میں بھی یہ ریسپٹر پایا جاتا ہے؟”۔ غیرمتوقع طور پر اس کا جواب یہ تھا کہ کچھ میں پایا جاتا ہے جبکہ کچھ میں نہیں۔
اور چھاتی کے کینسر میں یہ دونوں الگ قسم کے کیسز تھے۔ ایک وہ جن میں اس ریسپٹر کی سطح بلند تھی۔ یہ ای آر مثبت ٹیومر تھے۔ جبکہ دوسرے جن میں یہ سطح کم تھی اور یہ ای آر منفی ٹیومر تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جینسن کا مشاہدہ بیٹسن کے معمے کا ایک ممکنہ حل تجویز کرتا تھا۔ شاید ایسا تھا کہ ای آر مثبت ٹیومرز کے لئے ایسٹروجن کی بھوک برقرار تھی۔ جبکہ ای آر منفی ٹیومر ریسٹر سے اور ایسٹروجن پر انحصار سے نجات پا چکے تھے۔ اس وجہ سے انہیں بیٹسن کے اووری نکال دینے کے آپریشن سے فرق نہیں پڑتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تھیوری کو ثابت کرنے کا طریقہ تجربہ کرنا تھا۔ بیٹسن سرجری کو ای آر مثبت اور منفی ٹیومرز پر کیا جائے اور دیکھا جائے کہ آیا ریسپٹر موجود ہونے کا تعلق سرجری سے ریسپانس دینے سے ہے یا نہیں لیکن اس وقت سرجیکل پروسیجر کرنا ترک کیا جا چکا تھا۔
اس کا متبادل ایسی دوا دینا تھا جو ایسٹروجن بننے کو روک سکے لیکن ایسی کوئی دوا جینسن کے پاس نہیں تھی۔
اینٹی ایسٹروجن بنانے یا اس پر تحقیق کرنے میں دلچسپی نہیں تھی۔ اور کینسر پر تحقیق کا مطلب صرف نیا سائیکوٹوکسن بنانا سمجھا جاتا تھا۔ کینسر کے لئے ہارمونل تھراپی پر توجہ دینا؟ اس وقت میں رائج خیالات میں یہ وقت، پیسے اور محنت کا ضیاع تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس میں کامیابی ایک غیرمتوقع راستے سے ہوئی۔ یہ ایک ناکام ہو جانے والی مانع حمل دوا سے ہوئی،
(جاری ہے)