“اگر آپ اپنے دشمن کو جانتے ہیں اور خود کو جانتے ہیں تو سو جنگوں میں آپ کو نقصان نہیں ہو گا۔ اگر آپ خود کو جانتے ہیں لیکن دشمن کو نہیں تو ...
“اگر آپ اپنے دشمن کو جانتے ہیں اور خود کو جانتے ہیں تو سو جنگوں میں آپ کو نقصان نہیں ہو گا۔ اگر آپ خود کو جانتے ہیں لیکن دشمن کو نہیں تو ایک جنگ جیتیں گے اور ایک ہاریں گے۔ اگر آپ نہ ہی دشمن کو جانتے ہیں اور نہ ہی خود کو تو ہر جنگ میں شکست ہو گی”۔
۔سن زو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سائیکوٹوکسک تھراپی جارحانہ تر ہوتی جا رہی تھی تو اس کی مخالفت میں بھی آوازیں بلند ہونے لگیں اور ان کے دو پہلو تھے۔
پہلا یہ کہ مخالفین کی رائے میں زہریلی ادویات کی بالٹیوں پر بالٹیاں انڈیلنا کینسر پر حملہ آور ہونے کی واحد حکمتِ عملی نہیں ہو سکتی۔ رائج ڈوگما کے برعکس کینسر کے خلیات میں منفرد اور خاص کمزوریاں تھیں جن کے باعث یہ خاص کیمیکلز سے حساس تھے اور نارمل خلیے پر ان کا اثر کم ہوتا تھا۔
دوسرا یہ کہ ایسے کیمیکلز کو دریافت کرنے کا طریقہ کار یہ تھا کہ کینسر کے خلیے کی بائیولوجی کی گہرائی میں غوطہ لگایا جائے۔ بائیولوجی کے بنیادی معمے حل کئے جائیں اور نیچے سے اوپر آیا جائے۔ کینسر کے مخصوص خلیے پر حملہ آور ہونے سے پہلے اس کے بائیولوجیکل رویے کو سمجھا جائے۔ اس کے جینیاتی میک اپ کو جانچا جائے۔ اس کی کمزوری معلوم کی جائے۔ جادو کی گولی کی تلاش کے لئے خلیے میں جادو کے حدف کی کھوج ضروری ہے۔
اور ایسے ایک سرجن چارلس ہگنز تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہگنز یورالوجسٹ تھے اور ان کی دلچسپی پروسٹیٹ میں تھی۔ یہ چھوٹا سا گلینڈ مردوں میں urinary tract میں ہوتا ہے۔ اخروٹ کی شکل اور اتنے ہی سائز کا یہ گلینڈ کینسر کا آسانی سے شکار ہوتا ہے۔ مردوں میں ہونے والے ایک تہائی کینسر اس کے ہیں۔ ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں تیس فیصد میں یہ موجود ہوتا ہے۔
یہ بہت عام کینسر ہے اور اس کا کلینکل راستہ بہت ویری ایبل ہے۔ زیادہ تر لوگوں میں یہ خاموش رہتا ہے لیکن کئی مریضوں میں یہ جارحانہ ہو سکتا ہے اور ہڈیوں اور لمف نوڈ تک پھیل جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہگنز کی دلچسپی کینسر میں نہیں تھی بلکہ پروسٹیٹ کے فلوئیڈ کی فزیولوجی میں تھی۔ ان کا سوال تھا کہ “کیا مردانہ ہارمون پروسٹیٹ کی بڑھوتری کو کنٹرول کرتے ہیں؟”۔
ہگنز نے کتوں کے پروسٹیٹ فلوئیڈ اکٹھا کرنے کے لئے ایک آلہ بنایا اور اس کی مدد سے یہ اپنے سوال کے جواب کا معلوم کر سکتے تھے۔
انہیں معلوم ہوا کہ اگر خصی کئے گئے کتوں میں ٹیسٹوسٹرن انجیکٹ کی جائے تو پروسٹیٹ زیادہ فعال ہوتا ہے یعنی پروسٹیٹ اس ہارمون پر منحصر ہے۔
ہگنز ٹیسٹوسٹرن اور پروسٹیٹ کے خلیے کے میٹابولزم پر اس سے زیادہ گہرائی میں جانا چاہتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان، کتا اور شیر۔ صرف یہی تین ہیں جن کو پروسٹیٹ کینسر ہوتا ہے۔ اور اپنے تجربات میں ہگنز کو بار بار ایسے کتوں سے واسطہ پڑتا تھا جن میں پروسٹیٹ ٹیومر ہوتا تھا۔ پہلے انہوں نے ان کو سٹڈی سے الگ کر دینے کا سوچا لیکن ان کے ذہن میں ایک اور سوال پیدا ہوا۔ “اگر ٹیسٹوسٹرن کی کمی پروسٹیٹ خلیات کو سکیڑ دیتی ہے تو کیا یہ کمی کینسر کے خلیات کو بھی سکیڑ دے گی؟”۔
کوئی بھی کینسر بائیولوجسٹ انہیں جواب دیتا کہ “نہیں”۔ کینسر خلیات بے قابو اور تبدیل شدہ خلیات ہیں جو صرف انتہائی زہریلی ادویات کے مکسچر پر ریسپانس دیتے ہیں۔عام خلیات کو ریگولیٹ کئے جانے والے سگنل اور ہارمون کو یہ کب کا نظرانداز کر چکے ہوتے ہیں۔ جو باقی رہ جاتا ہے، وہ ایک خودغرض اور تیزی سے تقسیم ہونے والے خلیہ جو نارمل ہونے کی تمام یادداشت کھو بیٹھتا ہے۔
لیکن ہگنز کو معلوم تھا کہ ہر کینسر کے ساتھ ایسا نہیں۔ مثلاً، تھائیرائیڈ کینسر کے کچھ ویری انٹ نارمل خلیات کی طرح تھائیرائیڈ ہارمون پیدا کرتے رہتے ہیں۔ یعنی ان میں اپنے پہلے روپ کی کچھ یادداشت ہوتی ہے۔
انہوں نے رائج دانائی سے ہٹ کر اس کا جواب تجربے سے لینے کا فیصلہ کیا۔
(جاری ہے)