Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

کینسر (31) ۔ ایک وجہ

کینسر آخر ہوتا کیوں ہے؟ وجہ کیا ہے؟ اس کی مقبول وضاحت سوماٹیک میوٹیشن تھیوری تھی۔ اس کے مطابق ماحولیاتی کارسنوجن جیسا کہ ریڈیم یا دھویں کی ...

کینسر آخر ہوتا کیوں ہے؟ وجہ کیا ہے؟ اس کی مقبول وضاحت سوماٹیک میوٹیشن تھیوری تھی۔ اس کے مطابق ماحولیاتی کارسنوجن جیسا کہ ریڈیم یا دھویں کی کالک کسی وجہ سے خلیے کے سٹرکچر کو مستقل طور پر ضرر پہنچاتے تھے اور یہ کینسر کا موجب تھا۔ لیکن کیسے؟ مکینزم کیا تھا؟ یہ نامعلوم تھا۔ یہ تو واضح تھا کہ کالک یا ریڈیم یا پیرافن یا رنگسازی کی بائی پراڈکٹس میں ایسا کرنے کی صلاحیت ہے لیکن کوئی سسٹمیٹک وضاحت موجود نہیں تھی۔ کارسینوجینسس (کینسر کی پیدائش) کی گہری اور بنیادی تھیوری نامعلوم تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینسر کے محقق اس “ایک وجہ” کی تلاش میں تھے اور 1960 کی دہائی کا سب سے مقبول خیال “وائرس” تھا اور اس خیال کی ابتدا اس سے نصف صدی قبل مرغیوں سے ہوئی تھی۔
پیٹن روس مرغیوں میں ہونے والے ایک نایاب ٹیومر پر تحقیق کر رہے تھے۔ اس تحقیق کے لئے انہیں 1909 میں دو سو ڈالر کی گرانٹ ملی تھی۔ انہوں نے اس کو سارکوما کے طور پر شناخت کر لیا جو ٹشو کا کینسر ہے۔
اس کے خلیوں پر تجربہ کرتے ہوئے انہوں نے معلوم کیا کہ اگر ٹیومر کو ایک سے دوسری مرغی میں انجیکٹ کیا جائے تو یہ پھیل جاتا ہے۔ اس کے بعد روس کو ایک عجیب نتیجہ نظر آیا۔ ایک سے دوسری مرغی میں اس ٹیومر کو منتقل کرتے وقت وہ انہیں خلیاتی چھلنیوں سے گزارنے لگی۔ چھلنیوں کو باریک کرنے لگے۔ یہاں تک کہ یہ اتنی باریک ہو گئیں کہ ان میں سے تمام خلیات نکل گئے اور صرف فلٹریٹ باقی رہ گیا۔ روس کا خیال تھا کہ اب کینسر نہیں منتقل ہو گا لیکن ٹیومر پھیلتا رہا۔
روس نے جو نتیجہ اخذ کیا، وہ یہ کہ کارسنوجن خلیہ یا ماحول نہیں بلکہ خلیے کے اندر پایا جانے والا کوئی ننھا سا پارٹیکل ہے۔ یہ اتنا چھوٹا ہے کہ چھلنیوں سے گزر جاتا ہے اور دوسرے پرندے تک پہنچ جاتا ہے۔ ایسا واحد بائیولوجیکل پارٹیکل جو اس طرح کی خاصیت رکھتا ہے، وائرس تھا۔ اس وائرس کو بعد میں روس سارکوما وائرس کہا گیا۔ یا پھر یہ اپنے مخفف آر ایس وی سے مشہور ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آر ایس وی کی دریافت کینسر کا موجب بننے والے پہلے وائرس کی دریافت تھی اور یہ سوماٹک میوٹیشن تھیوری کے لئے دھچکا تھا۔ اس نے کینسر کے نئے وائرس تلاش کرنے کی دوڑ شروع کر دی۔ خیال تھا کہ کیسا کا کازل ایجنٹ مل گیا ہے۔
روس کے ساتھی رچرڈ شوپ کو خرگوشوں میں پاپیلوماوائرس ملا۔ دس سال بعد چوہوں میں لیوکیمیا پیدا کرنے والا اور پھر بلیوں میں پیدا کرنے والا لیکن انسانوں میں کینسر اور وائرس کے تعلق کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔
آخر، تین دہائیوں کی کوشش کے بعد ایسی ایک دریافت ہو گئی۔
برکٹ لمفوما افریقہ کی ملیریا بیلٹ میں بچوں کو ہونے والا کینسر ہے۔ آئرش سرجن ڈین برکٹ کو اس کے پھیلنے کے پیٹرن سے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے پیچھے کوئی انفیکشن ہو۔ جب دو برطانوی وائرولوجسٹ نے اس کے خلیات کا تجزیہ کیا تو انہیں ان خلیات میں یہ ایجنٹ مل گیا۔ یہ ملیریا کے نہیں بلکہ انسانی کینسر کے وائرس تھے۔ یہ ایپسٹین بار وائرس تھا اور دریافت ہونے پہلا وائرس تھا جو انسانوں میں کینسر کا سبب بنتا تھا۔
اگرچہ تیس برسوں میں ہونے والی یہ واحد دریافت تھی لیکن اب کینسر وائرس تھیوری مرکزی سٹیج پر تھی۔
وائرل بیماریاں اس وقت میڈیسن کا مرکزِ نگاہ تھیں۔ صدیوں سے ناقابلِ علاج سمجھی جانے والی بیماریوں کے خلاف دفاع مل رہے تھے۔ پولیو کی ویکسین 1952 میں بنی تھی اور شاندار کامیابی تھی۔ اگر کینسر کے پیچھے بھی ایسا وائرس نکل آئے جس سے بچاوٗ ممکن ہو؟ یہ انتہائی پرکشش آئیڈیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس نے ایک ہسٹیریا اور خوف کو چھیڑ دیا۔ اگر کینسر انفیکشن کی طرح ہے تو پھر کینسر کے مریضوں کو الگ تھلگ کر دیا جائے؟ ان سے چیچک اور تپدق والی احتیاط رکھی جائے؟ ایسے بیکٹیریا اور وائرس سے بچا کیسے جا سکتا ہے؟
ایک خاتون نے ڈاکٹر کو لکھا، “میرے گھر میں پھیپھڑے کے کینسر کا ایک مریض کھانسا تھا۔ مجھے کینسر کے جراثیم سے بچنے کے لئے کیا کرنا ہو گا؟ کوئی دوا ہے جو چھڑکی جا سکے؟ کیا مجھے اپنا گھر چھوڑ دینا چاہیے؟”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس جگہ پر “کینسر کے جراثیم” سب سے زیادہ انفیکشن پھیلا رہے تھے، وہ لوگوں کا اور محققین کا تخیل تھا۔ نیشنل کینسر انسٹیٹوٹ نے 1962 میں “سپیشل وائرس کینسر پروگرام” کا افتتاح کر دیا۔ جلد ہی اس پروگرام کو سب سے زیادہ توجہ ملنے لگی۔
سینکڑوں بندر لیبارٹری میں لائے گئے۔ ان کو انسانی ٹیومرز سے انجیکٹ کیا گیا۔ امید یہ تھی کہ اس کی مدد سے ویکسین بنائی جا سکے گی۔ ان میں کوئی ایک وائرس بھی نہیں مل سکا لیکن امید ماند نہیں پڑی۔ اس پروگرام کو اگلے دس سال میں پچاس کروڑ ڈالر کی فنڈنگ ملی (موازنے کے لئے: خوراک اور کینسر کے تعلق کے پروگرام کو اس اثنا میں اڑھائی کروڑ ڈالر کی فنڈنگ ملی)۔
پیٹن روس مین سٹریم میں آ گئے۔ ان کو اپنے کام پر 1966 میں نوبل انعام دے دیا گیا۔ یہ ان کے کام کے 55 سال بعد دیا گیا تھا۔ جب انہوں نے اپنا انعام قبول کیا تو تقریر کرتے ہوئے کہا کہ “کینسر کی وائرس تھیوری پر بہت کام کئے جانے کی ضرورت ہے لیکن یہ خیال مضحکہ خیز ہے کہ کینسر کی وجہ خلیے میں ہونے والی کوئی بھی تبدیلی، جیسا کہ جینیاتی میوٹیشن، ہو سکتی ہے۔ کئی سائنسدان ابھی بھی یقین رکھتے ہیں کہ خلیات میں جینیاتی تبدیلی کینسر کا موجب بن سکتی ہے۔ جب ہم کئی شواہدات کی روشنی میں اس کا جائزہ لیں تو ایسے کسی بھی مفروضے کو فیصلہ کن طور پر رد کر سکتے ہیں”۔  
دس دسمبر 1966 کو سٹاک ہوم کے سٹیج سے جب وہ تقریر ختم کر کے اترے تو اس وقت ان کا درجہ کینسر کے مسیحا کا تھا۔
بعد میں انہوں نے کہا، “سوماٹک میوٹیشن تھیوری کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کئی محققین اس پر یقین کرتے ہیں۔ یہ وقت کا ضیاع ہے اور کینسر کی تحقیق میں رکاوٹ ہے”۔
پیچیدگیوں اور باریکیوں سے اکتائے ہوئے سامعین ان کی دوا نگلنے کو تیار تھے، جو “کینسر کے وائرس کی تلاش” تھا۔ سوماٹک میوٹیشن تھیوری وفات پا چکی تھی۔
جو لوگ ماحولیاتی کارسینوجن کی تلاش میں تھے، اب وائرس تھیورسٹ سے انہیں اس چیز کی وضاحت درکار تھی کہ ریڈیم اور کالک آخر کیسے کینسر کا موجب بنتے ہیں۔ وائرس تھیورسٹ اس کا جواب دیتے تھے کہ ایسی اشیا اینڈوجینس وائرس کو متحرک کر دیتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملٹی ڈرگ تھراپی سے کینسر کا ایک علاج اور کینسر کے پیچھے کارفرما وائرس کی وجہ۔  ایک علاج اور ایک وجہ کی ان دونوں تھیوریوں کو جوڑ کر کینسر کی تحقیق کی ڈاکٹرائن بن چکی تھی۔
وائرس کی بنا پر کینسر کی تھیوری کو زیادہ گہری وضاحت درکار تھی۔ آخر وائرس ایک خلیے کی فزیولوجی میں اتنی بڑی تبدیلی کیسے لے آتے ہیں؟ کیموتھراپی کی کامیابی کو بھی بنیادی سوال حل کرنا تھے۔ آخر کیوں ایسا تھا کہ کئی جنرل قسم کے زہر دینے کی سیریز کچھ قسم کے کینسروں کا علاج کر دیتی تھی جبکہ کچھ قسم کے کینسر کو کچھ بھی نہیں کہتی تھی۔
ظاہر ہے کہ اس سب کے نیچے ایک بنیادی قسم کی وضاحت درکار تھی جو وجہ اور علاج کو ملا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا بنیادی وضاحت تک پہنچے بغیر کینسر کے خلاف کامیابی کی امید رکھی جا سکتی ہے؟ اور کیا بنیادی وضاحت تک پہنچنا ضروری بھی ہے؟ سائنس کے دو مکتبہ فکر کی بحث جاری تھی۔ “خاموش رہو اور عملی کاموں کی طرف توجہ دو” اس وقت کا غالب مکتبہ فکر تھا۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ وہ وقت تھا جب اپالو ۱۱ کا مشن چاند پر جا پہنچا۔ نیل آرمسٹرانگ کا چاند کی سطح پر رکھا گیا قدم وہ اہم سنگِ میل تھا جس نے اگلے برسوں میں کینسر ریسرچ کی سمت بھی طے کر دی۔
(جاری ہے)