بیسویں صدی کے وسط میں کینسر کے خلاف ہتھیاروں میں سرجن کا نشتر، ریڈیولوجی کی شعاعیں اور کیمیکل ادویات پر کام کیا جا رہا تھا۔ میڈیکل انقلاب ک...
بیسویں صدی کے وسط میں کینسر کے خلاف ہتھیاروں میں سرجن کا نشتر، ریڈیولوجی کی شعاعیں اور کیمیکل ادویات پر کام کیا جا رہا تھا۔ میڈیکل انقلاب کے اس دور میں کینسر کے خلاف پیشرفت سست تھی۔ کچھ لوگوں کو یہ احساس ہو رہا تھا کہ اس کے خلاف بھرپور اور باربط حکمتِ عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ تحقیق کے لئے پیسہ درکار ہے۔ اور اس کے لئے عوامی توجہ کی ضرورت ہے تا کہ ترجیحات اس سمت میں ہوں۔ کینسر پر بھرپور حملہ کرنے کے لئے قومی خزانے کا رخ اس سمت میں موڑنے کے لئے شہریوں کی ضرورت تھی جو اس کے لئے لابی کر سکیں۔
فاربر کی ملاقات ایک ایسی شخصیت سے ہو گئی جو نیویارک کی رہائشی جو اہم شخصیات اور سیاسی حلقوں میں جانی پہچانی تھیں۔ یہ میری لاسکر تھیں جو کینسر کی تاریخ میں اہم کردار رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاسکر کی والدہ کو 1939 میں پہلے ہارٹ اٹیک اور پھر سٹروک ہوا تھا جس نے انہیں مفلوج کر دیا۔ انہوں نے امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کو خط لکھا کہ “بیماریوں کے علاج ہو جاتے ہیں۔ ادویات مریضوں کو ٹھیک کر دیتی ہیں۔ لیکن سٹروک کے لئے کچھ کیوں نہیں ہے؟ آخر کیوں؟”۔
لاسکر کی والدہ ایک سال کی علالت کے بعد انتقال کر گئیں۔ لاسکر کے لئے یہ زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا اور یہ ان کا مشن بن گیا۔ “میری جنگ ہارٹ اٹیک اور کینسر سے ہے”۔ ان کے لئے کسی بیماری کا ناقابلِ علاج ہونا انسانیت کا گناہ تھا جس کو ٹھیک کیا جانا ضروری تھا۔ اور اس کے لئے انہوں نے اپنے شوہر کو قائل کر لیا۔
لاسکرز سماجی شخصیت تھے اور ان کی مہارت تعلقات بنانے کی تھی۔ میری لاسکر کا کہنا تھا، “اگر ایک ٹوتھ پیسٹ کے اشتہار کا بجٹ تین سے چار ملین ڈالر سالانہ ہو سکتا ہے تو پھر لوگوں کو مفلوج کر دینے والی بیماریوں پر سینکڑوں ملین ڈالر خرچ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے”۔ اگلے چند سال میں لاسکر کی کوششوں نے میڈیکل ریسرچ کو تبدیل کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عوامی آگاہی کے لئے سب سے پہلے پڑھے جانے والے مقبول رسالے ریڈرز ڈائجسٹ کا انتخاب کیا۔ اکتوبر 1943 کے انہوں نے ڈائجسٹ کو قائل کیا کہ وہ کینسر کی آگاہی اور اس کا پتا لگانے کے طریقوں پر مضامین کی سیریز شائع کریں۔ اور یہ سیریز بہت مقبول رہی۔
البرٹ لاسکر نے ایڈورٹائزنگ کے ماہر ایمرسن فٹ کی خدمت حاصل کیں۔ فٹ نے لاسکرز کی سوسائٹی کو لابی کرنے والا منظم گروپ بنا دیا۔ لاسکر فاونڈیشن میں ڈاکٹر، بائیولوجسٹ، محققین نہیں بلکہ بزنس مین، وکیل، فلمساز، لکھاری اور دوسرے عام لوگ شامل تھے۔
ایک سال میں انہوں نے نوے لاکھ پیس پرنٹ کئے۔ پوسٹر، سٹکر، گاڑی کے کارڈ وغیرہ۔ ان کا مقصد کینسر کے لئے فنڈ اکٹھے کرنا اور اس کے بارے میں آگاہی عام کرنے کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچ سال میں سوسائٹی پوری فورس سے کام کر رہی تھی۔ اب ان کا حدف وفاقی حکومت تھی۔ “کینسر کے خلاف جنگ کانگریس میں لڑی جانی ہے تا کہ لیبارٹریوں اور ہسپتالوں میں یہ جنگ جاری رہ سکے”۔ لیکن اس کے لئے لاسکر کو لیبارٹری کے ایک سائنسدان کی ضرورت تھی جو دکھا سکے کہ یہ تحقیق کس طرح ہو سکتی ہے۔
یہ سائنسدان سڈنی فاربر تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاربر اور لاسکرز کینسر کے خلاف جنگ میں اکٹھے ہو گئے۔ تقدیر کی ستم ظریفی یہ کہ 1951 میں البرٹ لاسکر بڑی آنت کے کینسر کا شکار ہو گئے۔ آپریشن کی کوشش کی گئی جس میں زیادہ کامیابی نہں ہوئی۔ چند ماہ بستر پر گزارنے کے بعد البرٹ لاسکر 30 مئی 1952 کو چل بسے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگاہی کی مہم کامیاب ہو رہی تھی لیکن اس کے شرکاء میڈیکل کے ماہر نہیں تھے۔ بڑا سوال موجود تھا۔ تحقیق کا طریقہ کار کیا ہو؟ اور یہاں پر دو الگ مکتبہ فکر تھے۔
(جاری ہے)
نوٹ: ساتھ لگی تصویر میری لاسکر کی۔ 1971 میں “کینسر کے خلاف جنگ” کی سرکاری فنڈنگ حاصل کرنے میں ان کا کلیدی کردار تھا۔ ٹی وی پر سگریٹ کے اشتہارات بند کروانا اور امریکن کینسر سوسائٹی کا قیام ان کی اہم کامیابیاں تھیں۔