میں نے اپنے کیرئیر کا بڑا ایک حصہ لوپ کوانٹم گریویٹی پر لگایا ہے۔ یہ ابتدا میرے لئے بہت دلچسپ تھا۔ اس پر وقت اور توجہ دینے کی ضرورت تھی۔ ایک...
میں نے اپنے کیرئیر کا بڑا ایک حصہ لوپ کوانٹم گریویٹی پر لگایا ہے۔ یہ ابتدا میرے لئے بہت دلچسپ تھا۔ اس پر وقت اور توجہ دینے کی ضرورت تھی۔ ایک تہائی صدی گزر جانے کے بعد ابھی بھی یہ خیال “شاید یہ درست ہو” سے آگے نہیں بڑھا۔ میرے لئے یہ خوشگوار نہیں لیکن بہت سے لوگوں کی سالوں کی محنت کے باوجود آگے بڑھنے کی راہ نہیں ملی۔ اور یہ سوچنے کا موقع دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کیوں ایسی اپروچ پر سائنسی پیپر لکھتے جا رہے ہیں جس کی خامیاں ہمیں دہائیوں سے واضح ہیں۔ جبکہ کوانٹم مکینس کے تکمیل کے کسی نئی اپروچ پر کچھ بھی نیا نہیں؟
ایسا نہیں کہ فزسسٹ اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ کوانٹم فاونڈیشن پر کام کرنے والے پیمائش کا مسئلہ اور دوسرے معمے حل کرنے کی بہت پرواہ کرتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ نیا راستہ لینا کسی کے لئے بھی بہت ہی مشکل ہے۔ اگر میں قائل بھی ہوں کہ کچھ بالکل نیا درکار ہے تو شروع کہاں سے کروں گا؟ مجھے فزکس کی کمیونیٹی کا ایکٹو حصہ ہونا ہے تا کہ میرے آئیڈیا کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ مجھے ریسرچ کے آئیڈیاز لکھنے ہیں کہ وہ سمجھے جائیں۔ اور یہ تو نہیں ہو سکتا ہے کہ اچانک بیٹھے بیٹھے کچھ سوجھ جائے۔ اور کوئی کتنے دن، ہفتے، مہینے اور سال برداشت کرے گا، اس سے پہلے کہ وہ ہار مان لے؟
مسئلہ یہ نہیں کہ فزکس کا نیا پیراڈائم بنانے کی کوشش رِسک والی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ شروع کہاں سے کیا جائے۔ پی ایچ ڈی کے طالب علم کو اپنا کام شروع کرنے کے لئے بھی کچھ سِرا درکار ہے۔
اس لئے، یہ آسان ہے کہ موجودہ فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے اس کو بڑھایا جائے۔ اور جہاں موقع نظر آئے، وہاں کچھ نیا متعارف کروانے کی کوشش کی جائے۔ سٹرنگ تھیوری یا لوپ کوانٹم گریویٹی وغیرہ میں کام کرنے والے ایسا ہی کرتے ہیں۔ ان کے پاس دکھانے کو خوبصورت رزلٹ بھی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے خود کو کہا تھا کہ میں ایسے رِسک اس وقت لوں گا جب پی ایچ ڈی مکمل ہو جائے۔ پوسٹ ڈاکٹریٹ ہو جائے۔ فیکلٹی پوزیشن مل جائے۔ لیکن سینئیر اور مشہور پروفیسروں کو بھی ریسرچ گرانٹ درکار ہے۔ کیرئیر میں عزت اور آرام والے عہدے کی ضرورت ہے۔ کئی اعزازات ہیں۔ اس لئے ہم ریٹائرمنٹ کا انتظار کرتے ہیں۔ جب ہم اس جھنجھٹ سے آزاد ہوں گے۔ لیکن پچاس اور ساٹھ سال کی عمر تک پہنچتے ہوئے مصروفیت سے بھرے دن کچھ اور سوچنے کا موقع نہیں دیتے۔ سیمنار کا شیڈول، اساتذہ کی میٹنگ، طلبا اور کلاس کے ساتھ کام۔ ریویو کا کام۔ کانفرنس اور لیکچر۔ وقت محدود ہے اور آپ لافانی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو پھر نئی فزکس کہاں سے آئے گی؟ شاید کہیں پر کوئی ذہین طالبعلم ہو۔ بہت خود سر، لیکن انتہائی باصلاحیت۔ جو سب سے پہلے اس تمام علم کو جذب کر لے، جو ہم نے حاصل کیا ہے۔ اور پھر، اس کے بعد اس سب کو ایک طرف رکھ دے اور پراعتماد طریقے سے اپنی ہی دھن میں شروع ہو جائے۔ ویسے جیسے آئن سٹائن تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ایک دوست نے مجھے کہا تھا کہ اکیڈمکس کی دنیا قدیم مذہبی درسگاہوں کے ماڈل پر ہے۔ اس کا ڈیزائن پرانے علم کو بڑھانا ہے اور نئے کے خلاف مزاحمت کرنا۔
کوہن کے ماڈل کی “نارمل سائنس” کے لئے اکیڈمک دنیا کام کرتی ہے۔ اور یہ سب ٹھیک چلتا رہتا ہے۔ انقلابی فکر کے لئے یہ موزوں نہیں۔
کئی بھی کسی بڑی دریافت تک اتفاقی طور پر نہیں پہنچا۔ بڑے بریک تھرو سالوں اور سالوں کی محنت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ فائن مین کا کہنا تھا کہ “نئی دریافت کے لئے آپ کو اتنا وقت درکار ہے کہ آپ تمام ممکنہ غلطیاں درمیان میں کر سکیں”۔ اور انہیں اس کا اچھی طرح سے علم تھا۔
فزکس کے بڑے مسائل کس طرح سے حل ہوں گے؟ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ آج کے زندہ فزسسٹ میں سے کسی کو اس کا تجربہ نہیں کیونکہ میری جنریشن نے فزکس کے کسی بھی بنیادی سوالات کے بارے میں کوئی بھی اہم بریک تھرو نہیں کیا۔ لیکن ہمارے پاس رول ماڈل ہیں۔ آئن سٹائن نے ایسا کیا تھا۔ بوہر نے۔ ڈی بروئے، شروڈنگر اور ہائزنبرگ نے کیا تھا۔ اور بوہم اور بیل نے بھی کیا تھا۔ ان سب نے راستہ ڈھونڈا تھا جس نے فاونڈیشنل دریافت کی۔ جس نے نیچر کے کام کرنے کے بارے میں ہمارے علم کو وسیع کیا۔ اور ان کو دیکھ کر جو پتا لگتا ہے وہ یہ کہ آپ اس کا آغاز کرنے کے لئے ایک نوٹ بک لیں۔ اس پر وہ سب کچھ لکھیں جس کے بارے میں آپ پراعتماد ہیں کہ آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ پھر خود سے پوچھیں کہ موجودہ قوانین میں سے کونسے فنڈامینٹل اصول ہیں جو آنے والے انقلاب کے آگے بچ پائیں گے۔
یہ لکھا جانے والا پہلا صفحہ ہے۔ اب اگلے صفحے پر چلے جائیں جو کہ خالی ہے۔ اور سوچنا شروع کر دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس کا انسانی پراجیکٹ ہمارے لئے ایک بڑا انقلاب رہا ہے۔ نیوٹن سے آئن سٹائن تک کے مفکرین کی دریافتیں ہماری صرف ہمارے طرزِ زندگی کو ہی نہیں بلکہ طرزِ فکر کو بھی تبدیل کر چکی ہیں۔
بہترین بات یہ ہے کہ یہ انقلاب نامکمل ہے۔
“آخر میں، ہماری تلاش یہی ہے کہ ہم اس دنیا کو درست طور پر جان لیں۔ آخرکار، حقیقت کو سمجھنے کی جستجو ہی ایک اصل سائنسدان کی روح کو بے چین رکھتی ہے”۔
ختم شُد
یہ سیریز اس کتاب کا ابتدائی حصہ تھا۔
Einstein's Unfinished Revolution: The Search for What Lies Beyond the Quantum by Lee Smolin