پیرس کی یونیورسٹی میں انیس سالہ ویسالئیس نے 1533 میں داخلہ لیا۔ وہ سرجن بننے کے خواہشمند تھے۔ اس وقت کی میڈیکل تعلیم میں طبِ یونانی کے خیالا...
پیرس کی یونیورسٹی میں انیس سالہ ویسالئیس نے 1533 میں داخلہ لیا۔ وہ سرجن بننے کے خواہشمند تھے۔ اس وقت کی میڈیکل تعلیم میں طبِ یونانی کے خیالات مقبول تھے۔ ان کو مایوسی اس وقت ہوئی جب انہیں معلوم ہوا کہ یونیورسٹی میں اناٹومی کی انفارمیشن ناقص ہے۔ انہوں نے اپنے ایک خط میں لکھا، “کسی نے مجھے انسانی پٹھوں، ہڈیوں کو نہیں دکھایا۔ نہ ہی رگوں اور شریانوں کو”۔ انسانی اعضاء کے نقشے کے بغیر سرجری ویسے تھی جیسے ملاح بغیر نقشے کے سفر کریں۔ یہ اندھا سفر تھا۔
ویسالئیس نے یہ نقشہ خود بنانے کا فیصلہ لیا۔ انہوں نے پیرس کے قبرستانوں سے لاشیں چوری کرنی شروع کیں۔ پیرس کی وبا میں مرنے والوں کی تعداد اور تازہ لاشوں کی کمی نہیں تھی۔ انہیں وہ جگہ بھی مل گئی جہاں قیدیوں کو سزائے موت دی جاتی تھی (اور پیرس میں یہ بہت سے لوگوں کو دی جاتی تھی) اور انہیں چیلوں اور کووں کو کھانے کے لئے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ ویسالئیس کے پاس اب ایک ذخیرہ موجود تھا جس پر تجربے کر سکتے تھے۔
وہ لاش اٹھا لاتے اور یونیورسٹی کے تہہ خانے میں ڈائسیکشن چیمبر میں اس کا تجزیہ کرتے۔ مُردوں کی اس دنیا نے میڈیکل میں اناٹومی کے شعبے کو زندگی بخش دی۔ 1538 میں انہوں نے ٹیٹیان سٹوڈیو کے آرٹسٹ سے مدد لی کہ وہ تصاویر بنا سکیں۔ تفصیلی چارٹ جو رگیں، شریانیں، اعصاب اور لمف نوڈ دکھاتے۔
انہوں نے ٹشو کی تہیں ہٹانا شروع کیں۔ ان تہوں کی نقشہ سازی ہونے لگی۔ پھر دماغ کو مہارت سے کاٹے گئے افقی سیکشن کی صورت میں بنایا گیا۔ سی ٹی سکین کی ایجاد سے صدیوں قبل، یہ انسانی دماغ کا سی ٹی سکین تھا، جو اس کے حصوں کو بڑی نفاست سے دکھاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسالئیس نے اسے انٹلکچوئل کاوش کے طور پر شروع کیا تھا لیکن یہ جلد ہی عملی ضرورت کا حل بنا گیا تھا۔ جالینوس کی ہیومر تھیوری کے مطابق ہر بیماری جسم کے چار سیالوں کے عدم توازن کی وجہ سے تھی۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ مریضوں کا خون نکال کر یہ توازن درست کیا جاتا تھا۔ اور اس کی تکنیک بنائی گئی تھیں۔ خاص جگہوں سے خون نکالا جاتا تھا۔ اگر یہ بیماری سے بچاوٗ کے لئے کیا جا رہا ہے تو پھر اسے بیماری کی جگہ سے دور کیا جاتا تھا۔ اگر اس کو ٹھیک کرنے کے لئے تو حجامہ کی جگہ عضو کے قریب بنائی جاتی تھی۔ اس دھندلی تھیوری کی طبیب کو طویل اور پیچیدہ تربیت دی جاتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسالئیس اسی کو بہتر کرنا چاہتے تھے۔ اس نقشے سے اس کا تعین ٹھیک طریقے سے ہونا تھا۔
ویسالئیس نے پراجیکٹ شروع کیا تو وہ خود کو روک نہیں پائے۔ “میری تصاویر سے میڈیسن کے پروفیسروں میں جوش پایا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فلاں جگہ کی رگوں کی ڈایاگرام بھی بناوٗ۔ میں انہیں مایوس نہیں کر سکتا”۔
جسم ہر طرف سے لاتعداد کنکشن رکھتا تھا۔ رگیں اعصاب کے ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ اعصاب ریڑی کی ہڈی سے جڑے تھے۔ ریڑھ کی ہڈی دماغ سے۔ ان سب کو الگ الگ نہیں بنایا جا سکتا تھا۔ یہ مکمل تصویر ہی معنی دیتی تھی۔ یہ بہت بڑا اور پیچیدہ کام تھا جس میں ویسالئیس نے ہاتھ ڈال دیا تھا۔ انہوں نے مزید آرٹسٹ بھرتی کئے۔
وہ جتنا بھی گہرائی میں جا رہے تھے۔ جالینوس کا سیاہ سیال جسم میں انہیں نہیں ملا۔ اس پوسٹ مارٹم کے لئے “آٹوپسی” کا لفظ استعمال ہوتا ہے، جس کا مطلب “خود دیکھنا” کے ہیں۔ ویسالئیس خود دیکھ رہے تھے اور انہیں وہ نہیں مل رہا تھا جو جالینوس کی کتابوں میں تھا۔ لمفاٹک سسٹم میں ہلکے رنگ کا سیال تھا۔ شریانوں میں خون۔ زرد بائیل جگر میں تھا۔ لیکن سیاہ بائیل کہیں نہیں۔ جالینوس نے جس چیز کو اسے کینسر اور ڈیپریشن کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا، وہ انسانی جسم میں نہیں تھی۔
ویسالئیس جالینوس کی تھیوری کو مضبوط کرنا چاہتے تھے، اسے آگے بڑھانا چاہتے تھے لیکن انجانے میں انہیں نے خاموشی سے اسے دفن کر دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لندن کے اناٹومسٹ میتھیو بیلی نے 1793 میں اناٹومی پر کتاب شائع کی۔ ویسالئیس کی کتاب نارمل جسم پر تھی۔ بیلی کی کتاب بیماری والے اجسام پر۔ ٹیومر کو سیاہ بائیل سے بھرے ہونا چاہیے تھا لیکن اس میں بھی انہیں کچھ نہیں ملا تھا۔ اگر جالینوس کے سیالوں کا جال موجود تھا تو وہ ٹیومر میں نہیں تھا، پیتھولوجی میں نہیں تھا اور اناٹومی میں نہیں تھا۔ یعنی کہ میڈیکل سائنس میں نہیں تھا۔ بیلی نے بھی، صرف وہی بنایا جو انہیں نظر آیا۔ اور اس کے ساتھ ہی ڈیڑھ ہزار سال پرانے طبِ یونانی کی وضاحتوں کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ کینسر کا سیاہ سیال میڈیکل کی تصویر سے غائب ہو گیا۔
(جاری ہے)