Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

کینسر (10) ۔ قدیم علاج

بقراط نے سب سے پہلے 400 قبلِ مسیح میں کینسر کے لئے میڈیکل لٹریچر میں کارسینوس کا لفظ استعمال کیا۔ یہ لاطینی زبان میں کیکڑے کے لئے لفظ تھا۔ ا...


بقراط نے سب سے پہلے 400 قبلِ مسیح میں کینسر کے لئے میڈیکل لٹریچر میں کارسینوس کا لفظ استعمال کیا۔ یہ لاطینی زبان میں کیکڑے کے لئے لفظ تھا۔ اس کا ٹیومر، جس میں پھولی ہوئی خون کی رگیں پھیلی ہوتی ہیں، کیکڑے جیسا لگا ہو۔ یا پھر اس کی سطح کی سختی کیکڑے کے خول کی طرح۔ یا پھر یہ  کہ کیکڑے کی طرح خاموشی سے یہ اندر ہی اندر چل کر پھیلتا جاتا ہے۔ یا پھر اس کی تکلیف ویسے ہے جیسے کیکڑے نے اپنے شکنجے میں پکڑ لیا ہو۔۔
اس کے لئے استعمال ہونے والا ایک اور لفظ اونکوس تھا، جو ٹیومر کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ اس کا مطلب بوجھ کا تھا۔
لیکن طبِ یونانی میں کینسر کے ٹیومر کو دوسرے سے الگ کرنے کا طریقہ نہیں تھا اور یہ اصطلاح ہر قسم کے ابھار کے لئے استعمال کی جاتی تھی۔
یونانیوں کے پاس مائیکروسکوپ نہیں تھی۔ انہیں خلیے کا تصور نہیں تھا۔ اس لئے انہیں یہ خیال بھی نہیں آ سکتا ہو گا کہ کارکینوس دراصل خلیوں کی بے قابو بڑھوتری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم ہمیشہ سے انسان کو اپنی موجودہ جدید ترین ٹیکنالوجی کی نظر سے دیکھتے آئے ہیں۔ آج اس کے لئے مصنوعی ذہانت اور کمپییوٹنگ کے استعارات استعمال کئے جاتے ہیں۔ یونان میں ہائیڈرالک سائنس زراعت اور نہروں کی کھدائی وغیرہ میں انقلاب لے کر آئی تھی۔ ارشمیدس کی اپنے حمام میں دریافت سے لے کر پسٹن، والو، چیمبر، پانے سے چلنے والے پہیے وغیرہ، اس وقت کی سائنسی ٹیکنالوجی کا شاہکار تھے۔ بقراط نے انسانی جسم کو سیال اور ان کے ہائیڈرالکس کی عینک سے دیکھا تھا۔ طبِ یونانی کے چار ہیومر اسی طرزِ فکر کا شاخسانہ تھے۔ بقراط کا کہنا تھا کہ انسانی جسم میں چار سیال ہیں۔ خون، بلغم، سیاہ بائیل اور زرد بائیل۔ ہر سیال کا الگ رنگ ہے (سرخ، سیاہ، زرد اور سفید) اور الگ خاصیتیں۔ ایک نارمل شخص میں یہ چاروں ایک توازن میں ہیں اوراگر یہ بگڑ جائے تو پھر اس کا مطلب بیماری ہوتا ہے۔
جالینوس سب سے بااثر یونانی طبیب تھے۔ ان کی سن 160 میں لکھی ہوئی کتابیں اگلے ڈیڑہ ہزار تک دنیا بھر میں استعمال ہوتی رہیں۔ یہ بقراط کے ہیومر کی بنیاد پر ہی لکھی گئی تھیں۔ ان کے مطابق سوجن کا مطلب سرخ کی زیادتی تھا۔ پھوڑے، نزلہ، گلٹی سفید کی زیادتی۔ یرقان زرد ہیومر کا زیادہ ہونا جبکہ سرطان (اور ڈیپریشن) سیاہ ہیومر کا زیادہ ہونا۔ جالینوس کے مطابق، سیاہ بائیل کا ایک جگہ پر پھنس کر اکٹھا ہو جانا کینسر ہے۔
یہ مختصر سی وضاحت اونکولوجی کے مستقبل کے لئے اہم رہی۔ جالینوسی تھیوری کے مطابق سیاہ ہیومر زیادہ ہو جانے کی وجہ سے یہ بیماری ہوتی تھی اور اس کے ٹیومر ایک گہرے عارضے کا مقامی جگہ پر اظہار تھے۔ بقراط کا کہنا تھا کہ “کینسر کے لئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کا علاج نہ کیا جائے۔ اس طرح مریض کے زیادہ زندہ رہنے کا امکان ہے”۔
جالینوس نے بقراط سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ “سیاہ بائیل ہر جگہ پر ہے۔ اگر کینسر کو کاٹ دیا جائے تو یہ سیال واپس آ جائے گا”۔
جالینوس کا انتقال سن 199 میں ہوا۔ ان کی تھیوری آنے والے طبیبوں کے ذہنوں میں رہی۔ جان آف آرڈین چودہویں صدی میں لکھتے ہیں، “اس خیال کو ذہن سے نکال دیں کہ اس کی سرجری کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ کسی کو فائدہ نہیں دے گا”۔ پندرہویں صدی کے مشہور ڈاکٹر لیونارڈ برٹی پاگلیا لکھتے ہیں، “وہ جو اس کو کاٹ کر یا جلا کر علاج کی کوشش کرتے ہیں، وہ مریض کی کوئی مدد نہیں کرتے۔ میں نے ایک بھی ایسا کیس نہیں دیکھا جس میں کاٹنے سے علاج ہوا ہے اور نہ ہی کسی ایسے شخص نے دیکھا ہے جسے میں جانتا ہوں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جالینوس نے کینسر کے مریضوں کے ساتھ انجانے میں بھلائی کر دی تھی۔ کیونکہ بے ہوش یا سن کئے جانے کی ٹیکنالوجی اور اینٹی بائیوٹکس کے بغیر آپریشن آسان چیز نہیں تھی۔ یہ قدیم کلینک کے تاریک کمروں میں یا پھر زیادہ تر کسی حجام کے دکان کے پچھلے کمرے میں ہوا کرتے تھے، جہاں چمڑے کی بیلٹوں سے مریض کو باندھا جاتا تھا اور کند نشتر استعمال ہوتے تھے۔ یہ آپریشن جان کے لئے خطرہ تھے۔ ٹیومر کو جلانے کے لئے دہکتے کوئلے پر گرم کئے گئے لوہے سے داغا جاتا تھا یا کیمیائی طور پر جلانے کے لئے گندھک کے تیزاب کا پیسٹ استعمال ہوتا تھا۔ اس طریقے سے کئے گئے علاج کی وجہ سے مہلک انفیکشن بن جانا عام تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹھارہویں صدی کے جرمن فزیشن لورینز ہائیسٹر لکھتے ہیں، “چھاتی کے کینسر کا آپریشن کروانے والی کچھ خواتین بہت ہی بہادری سے اسے برداشت کرتی ہیں اور زیادہ شور نہیں کرتیں۔ جبکہ کچھ اس قدر واویلا مچاتیں ہیں کہ بڑے تجربہ کار سرجن کا بھی دل دہل جاتا ہے اور یہ آپریشن میں رکاوٹ بنتا ہے۔ یہ کام کرنے کے لئے سرجن کا دل مضبوط ہونا چاہیے اور مریض کی چیخ و پکار کو نظرانداز کرنے کی مہارت ہونی چاہیے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ باعثِ تعجب نہیں تھا کہ بہت سے مریض سرجری کے بجائے ادویات کا انتخاب کرتے تھے۔ اور ان علاجوں کی فہرست طویل ہوتی گئی۔ سیسے کے ٹنکچر، سنکھیا کے کشید، سور کے دانت کا سفوف، لومڑی کا پھیپھڑا، ہاتھی دانت کی رگڑ، دھلی ہوئی ارنڈی، پسی ہوئی سفید مرجان، سنا مکی کا قہوہ، عرق الذہب، اور پھر کئی طرح کے جلاب۔۔  پھر الکوحل اور افیم آئے تاکہ تکلیف کم کی جا سکے۔ سترہویں صدی میں کیکڑے کی آنکھ مشہور ہوئی۔ مرہم اور معجون ہر صدی میں بڑھتے گئے۔ بکری کی مینگنیاں، مینڈک، کوے کے پنجے، بابونہ کا بدبودار پھول، کچھوے کی کلیجی ۔۔۔ مقدس پانی، ہاتھوں سے علاج، سیسے کی پلیٹ سے ٹیومر کو دبانا۔
آپریشن عام طور پر نہیں کیا جاتا تھا، یہ صرف اس وقت کیا جاتا تھا جب تکلیف حد سے بڑھ جائے۔ اور جب کچھ اور کام نہیں کرتا تھا تو پھر جالینوس کا ایک اور حربہ استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ حجامہ تھا جسے عام طور پر حجاموں کی دکان پر کیا جاتا تھا۔ کاٹ کر یا چوس کر خون کو نکالنے کی رسم ۔۔۔ گویا کہ جسم ایک بھاری اور بھرا ہوا سفنج ہو۔
(جاری ہے)