80 کی دہائی تھی فطرت نقاب اوڑے آئی تھی لال دین کی دعا رنگ لائی تھی اختر احسن کا مہمان تھا میں اپنے رب کا عبدالمنان تھا میں محرومیوں کا بسیرا...
80 کی دہائی تھی
فطرت نقاب اوڑے آئی تھی
لال دین کی دعا رنگ لائی تھی
اختر احسن کا مہمان تھا میں
اپنے رب کا عبدالمنان تھا میں
محرومیوں کا بسیرا تھا
خاندان سارا محبتوں کا لٹیرا تھا
نہ کوئی کسی کا نہ کوئی میرا تھا
طفولیت کیا تھی
رنگ تھا اک حباب سا
میرا سوختہ دل تھا کباب سا
میرے دادا میری سوچوں کا کنارا تھے
وہ میری رفاقت اور میرا سہارا تھے
کٹتی راتیں تھی اور دنوں کا گزارہ تھے
بچپنا کیا تھا مایوسیوں کی کہانی تھی
مطلب۔۔۔۔۔؟
ہر انقلاب میں یہ پرانی تھی
میرا مکتب بھی اک عجب زمانہ تھا
میرا پہلا استاد بڑا پرانا تھا
اسلم باجوہ نام تھا اس کا
نیک راستی گام تھا اس کا
محنت میں عظمت پیغام تھا اس کا
وہ دادا استاد بھی تھا
یعنی
وہ میرے بابا کا استاد بھی تھا
میرا بچپن چلے جا رہا تھا
اپنے رب سے پلے جا رہا تھا
سوچوں میں بڑی تنہائی تھی
زندگی کیا کیا رنگ لائی تھی
دادا کی رفاقت تھی
یہ زندگی میں اک سعادت تھی
اور زندگی کا گھوڑا دوڑتا رہا
وقت خود اس کو جہاں چاہتا موڑتا رہا
اور پھر
آن کی آن بچپنا کٹ گیا
پہچان کی پہچان نو بلوغت کا موسم بھی چھٹ گیا
پھر
90 کی دہائی تھی
زندگی نئے رنگ لے آئی تھی
یہ تعلیم کا ارتقاء بھی تھا
یہ تسلیم کا ارتقاء بھی تھا
میرے من میں اک لاوہ پک چکا تھا
دل کا سارا موسم سب سے کٹ چکا تھا
گھر کی وحشتوں سے بھاگتا تھا میں
غم کی دھنوں کو الاپتا تھا میں
آنکھوں میں ویرانیاں تھی
خیال میں خواہش کے جگنوؤں کی نشانیاں تھی
پھر
بلوغت کا اک ہیجان بھی تھا
لیکن ساتھ ساتھ اک ایمان بھی تھا
تنہائی کنارے ڈھونڈتی رہی
بے پروائی سہارے ڈھونڈتی رہی
اسی اثناء میں
میرے دل میں اک بت آگیا تھا
ہر طرف ہی تو شرک کا موسم چھا گیا تھا
میری محبت میں بھی وحدت کا رنگ تھا
لیکن یہ محبت دل کا زنگ تھا
یہ جماعت نہم کا زمانہ تھا
عباس اور محسن کی دوستی باہم کا زمانہ تھا
زبانوں پہ محبت کا ترانہ تھا
دن کی قربتیں اور راتوں کا تازیانہ تھا
مطلب
میں مجاز کے ہر رنگ میں منفرد ٹھہرا
لیکن
کہیں باطن میں حقیقت کا تھا پہرا
پھر اک نیا دوست زندگی میں آگیا
اس کی باتوں کا انداز دل کو بھا گیا
مجھکو نہیں تھی اس کی پہچان
لیکن اس نے بخشا مجھکو اک عرفان
اور
میں ہوا منان سے عبدالمنان
الشاہ انوار الحق تھا اس کا نام
الشاہ کمال الدین نے دیا تھا اس کو منفرد گام
عشق کا سلوک پڑھاتا تھا وہ
بڑے راز کی باتیں بتاتا تھا وہ
بس من ہی من میں مٹاتا جاتا تھا وہ
اسی دوران۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلامیہ ہائی سکول تھا
وہاں اک استاد بڑا مقبول تھا
وہ صداقت تھا ، دیانت تھا
نام بھی اس کا سر امانت تھا
شفقت تھی ان کی روح کی کہانی
خیال تھے بڑے نورانی ، نورانی
پھر
اول اول جو بہک گیا تھا
ان کی صحبتوں سے میں مہک گیا تھا
پھر کالج کا زمانہ تھا
رونقوں کا موسم اور بہار کا آنا جانا تھا
اسی موسم میں تصور علم آیا تھا
کالج کی لائبریری میں علم جہاد اٹھایا تھا
یہ میرے شعور کا ارتقاء بھی تھا
میرے دل میں محبت رسول کا القا بھی تھا
اور
اس حال میں
فکر و عمل کے قال میں
میری جنم بھومی پہ قادیانیت نے پنجا گاڑا تھا
ہر طرف مرزائیت کا بڑھتا چلا گیا اجارہ تھا
پھر رب نے کی مجھ پہ عنایت
یہی تھی میرے لیے کفایت
اور پھر ۔۔۔۔۔
قادیانیت کو پچھاڑا تھا
لیکن تب بھی امن اور شعور نشان ہمارا تھا
اور پھر۔۔۔
قادیانیت ہوئی دشمن اور کوئی اپنا بھی مخالف ہمارا تھا
پھر
کالج گزرا یونیورسٹی آئی
زندگی کے نئے چال چلن ساتھ لائی
اور اب
علم کا ہیجان تھا
زندگی کے سوالوں نے کر دیا بے جان تھا
کیوں، کب،کیسے،کسطرح استفہامیہ کلمات تھے
یہ فلسفہ ، تاریخ اور انقلاب کے ہم ذات تھے
مارکس تھا ، لینن تھا ، سٹالن تھا
لیکن میرا دل محمد مصطفیٰ کی محبت کا پالن تھا
پھر
سیرت کا ہر دم پڑھنا تھا
دل کا ہر دم کڑہنا تھا
پھر ۔۔۔۔۔
مجھکو مل گیا تھا اک امام
نام تھا اس کا شیخ الاسلام
دیا اس نے مجھکو انقلاب کا سارا افہام
امن ، اخوت ، مساوات اور کفالت کا نظام
پھر کیا تھا
بے چین تھی زندگانی میری
ہو گئی تھی آسان قربانی میری
پھر۔۔۔۔
دل میں اک فیصلے کا آنا تھا
کہ
پاک وطن کو بچانا تھا
آئین اسلام کو لانا تھا
نظام سارے کا سارا برٹش کا پرانا تھا
اب اس کو کسی طرح اڑانا تھا
پھر
جدوجہد اور زندگی بڑھتی رہی
اذیت ، مصیبت ، ملامت ، بلائیں
اور زندگی حالات سے لڑتی رہی
اور
اُدھر تقدیر اپنے خاکے بنتی رہی
اور میرے من کی دنیا یونہی بٹتی رہی
دوستو یہی وہ زمانہ ہے
کہ میری زندگی میں سر قذافی کا آنا ہے
بڑی مروتوں کا انسان تھا وہ
علم کی دنیا میں، میں جب بھی بہکا ، میری پہچان تھا وہ
دوستو!
زندگی مراحل میں جاری رہی
انقلاب کی کیفیت مجھ پہ طاری رہی
اسی دوران لاہور سے گھر آنا ہوا
اور میں اک حادثے کا نشانہ ہوا
آئی کاری ضربیں اور 40 روزہ نیم بے ہوشی کا تازیانہ ہوا
یادداشت ہوئی رخصت اور بے خودی کا آنا ہوا
اور
زندگی ایک بار پھر پلٹا کھا گئی
تنہائی زندگی میں سما گئی
گویا یہ حادثہ کیا تھا اک حقیقت کا نشان
ہو گئی اپنے غیر کی پہچان
بھول نہیں سکتا اک شخص کا احسان
کتنا رحم کیا اس نے اس دوران
نام ہے اس کا الشاہ مزمل بھائی جان
بہرحال ابھی بہت کچھ باقی تھا
اک زمانہ میرے حالات کا شاکی تھا
سنو دوستو!
اس حال میں بھی میں نے خود کو پہچان لیا تھا
صرف مصطفٰی صلی علیہ والہ وسلم کو اپنا مان لیا تھا
اور میں۔۔۔۔۔
اک رستے کو چل پڑا تھا
اسی رستے میں تحقیق اور جستجو کا حل پڑا تھا
پھر
بند کمرے اور حبس ، ہوا کا موسم
کتاب سنگت اور خشک خیال کا موسم
تحقیق مجھ پہ طاری تھی
اورمیں نے من کی دنیا ساری ہاری تھی
پھر اک انکشاف ابھرا تھا
اک اضطراب ابھرا تھا
گویا اپنی ہی زندگی میں اک انقلاب ابھرا تھا
پھر
آئی ایم این کے نام پر بنائی جماعت
ذات پات اور فرقوں میں اٹھائی جماعت
اقبالین نام کا اک اخبار بھی تھا
حق پرستی کے نام اک اظہار بھی تھا
مگر
حق کمزور اور باطل کا ایکا ہو گیا
اور ہمارے لیے دشمنوں کا دشمنوں سے ٹھیکہ ہو گیا
پھر انداز بدلہ گیا
خرد کا اعزاز بدلہ گیا
پھر آندھیاں تھیں طوفان تھے
لیکن میں اور میرے دوست حق پرستی پہ قربان تھے
اور
سماج میں خود پرستی کے سلطان تھے
اور
میں اور آئی ایم این کے دوست جانب علم و عرفان تھے
پھر آگئی وہ گھڑی
جس میں زندگی تھی کھڑی کی کھڑی
اور سفید داڑھی نے دیا اشارہ تھا
پھر بیچ قادیانیت کے ایگری مال میں اتارہ تھا
لوگ کیا سے کیا سمجھے اور انگلیوں کا نظارہ تھا
لینی تھی قادیانیت کے اندر کی خبر اور اسی میں کنارا تھا
بس عارف حق اور اللہ کا سہارا تھا
اور میں لے آیا ان کا افہام سارا تھا
یہ ایسی کہانی تھی
اس کے پیچھے اک عارف حق کی نگرانی تھی
عارف حق ابراہیم بن کے آیا تھا
اس نے مجھے منان سے موسی بننا بتایا تھا
میں بڑھتا رہا
میں بڑھتا رہا
زندگی کا موسم بٹتا رہا
عارف حق نے دیا پیغام
اب اپنی معیشت کا کرو انتظام
پھر ماں کے سامنے ہاتھ پھیلایا تھا
ماں کے پیسوں سے اک کاروبار بنایا تھا
کی بڑی محنت اور اس کو چلایا تھا
پھر
ہر محروم دوست پکڑا اور کاروباری بنایا تھا
اگلے وقتوں کے لیے اپنا بازو بنایا تھا
میں چلتا چلا جا رہا تھا
کاروبار بڑھتا چلا جا رہا تھا
پھر
قدرت نے بہنا کا ہاتھ پیلا کرایا تھا
عارف حق نے مجھکو ماں باپ کا غلام بنایا تھا
حسد کی نگاہیں تھیں چاروں طرف
اور ہر اپنا غیر بن آیا تھا
اور دوسری طرف
ہر کاروباری دوستوں کو پیسے نے للچایا تھا
ہر اک میں اک کہانی پل رہی تھی
ہر ذہن میں اک شیطانیت چل رہی تھی
ان میں اک شاطر ذہن نے مزید آگے بڑھنے پہ مجھکو اکسایا تھا
انکے لالچ نے ان سب کو ایک کرایا تھا
اور
میں مزید بڑھنے لاہور آیا تھا
اور میرے پیچھے سب نے ملکر اک چکر چلایا تھا
میرے چیکوں پہ ہوئی گیم
لگی ٹھوکر اور آگے بڑھا میرا پریم
میں لٹ چکا تھا
میں لٹ چکا تھا
اور زندگی ہتھیلی پہ آ گئی تھی
مایوسی لبوں پہ چھا گئی تھی
اور میں پھر بہکنے لگا تھا
اپنے مقاصد چھوڑ کر وادی میں اترنے لگا تھا
یہ لا تقنطو سے دوری کا موسم تھا
یہ بڑی ہی بے قراری کا موسم تھا
کہ
آگیا پھر الشاہ انوار
دی ہمت اور حوصلے کو کیا قرار
نوید دی اور بہار کا دیا انتظار
اور میں تھا خطاوار ، بے قرار
دوستو!
میں پھر اٹھ کھڑا تھا
میں اک بار پھر مڑا تھا
میں نے دیکھا
درد ساتھی، درد آنگن
درد مٹی ، درد پانی ، درد ہوا تھا
ہر اپنا چھوٹ چکا تھا
محبت کا موسم روٹھ چکا تھا
خون کی سفیدی تھی
کہیں نہ میری آزادی تھی
اس جاں کنی میں
درد کی راگنی میں
اک آوازہ بلند ہو چکا تھا
میں اس پہ اپنے راستے کا پابند ہو چکا تھا
تھی حالت سفر اور غربتوں نے گھیرا تھا
میں مسافر تھا اور ہر اپنا لٹیرا تھا
اور
زندگی کے تانے بانے میں کوئی نہ میرا تھا
کوہستان کی پہاڑیاں تھیں
میری بے قراریاں تھیں
یہ غم کے موسم کا ساز تھا
ابھی تو اس سفر کا آغاز تھا
اور پھر اک جنگل میں مسافر کو ٹھکانا مل گیا
ولیوں کے اک غار میں 40 روز کا آنا جانا مل گیا
رحم مانگتے تھا بیسواں قیام
اور دور ہونے لگے ابہام و افہام
اور چالیسویں رات تھی نجات
پھر نئی بن گئی تھی میری ذات
پھر اک سردار ارباب سکندر تھا
میرے اور اس کے ماننے میں ایک ہی قلندر تھا
اسی وجہ سے اک اخلاص تھا
جو میرے لیے خاص تھا
سردار ارباب نے اس سفر میں مثالی کردار نبھایا تھا
وہ مشکل کی گھڑی میں سایہ بن کر آیا تھا
سردار ارباب نے جنگل کے ڈھیرے کو میرا مسکن بنایا تھا
پھر کتابوں کے ڈھیر تھے اور اک جنون مجھکو آیا تھا
ان کا بابا سردار سکندر تھا
بڑا صاف ان کا اندر تھا
12 سے 14 ان کا گھر میرے انقلاب کا مندر تھا
وہاں اک سردار تھا غلام شاہ
وفا اس کی فطرت کی تھی قبا
غم کے اس سارے موسم میں مجھ سے کی وفا
پھر اک سردار ملک شوکت حیات بھی تھا
وہ وفا کا منہ بولتا کردار اور صاحب ذات بھی تھا
نا امیدی میں تھا وہ اک آس
میری سنگتوں کا تھا اک احساس
اس نے اپنی قوم کے لیے دی قربانی
اور وفا کی بن گیا باس
دوستو!
اس سارے سفر میں اک کردار میری زمیں بھی تھا
وہ اک مرسلین بھی تھا
وہ دوستی اور کردار میں نمکین بھی تھا
اس نے دی مجھے عزت اور میرے غم میں غمگین بھی تھا
وہ میرے لیے ایسا نیک ہو گیا تھا
وہ میرے ساتھ ایک ہو گیا تھا
کئے وعدے
خواہش سے جنازے تک
راہوں سے دروازے تک
چلیں ہیں ساتھ ملکر
چلیں گے ساتھ ملکر
المختصر
وہ محبت کی خوبصورت تضمین تھا
پھر
2010ء سے2012ء جنگل میں کٹ گیا
کچھ آئی آسانی تو میں دو حصوں میں بٹ گیا
دن قریبی شہر میں اور رات جنگل کی تھی ستار
“سپر ایشیا کمپنی” سے جان چھوٹنے کا تھا اتظار
میں نے ایک بار پھر پیدا کیا خود میں اعتبار
اور دوستو!
میں اک بار پھر کھڑا تھا
میں نے جذبات کو کچل ڈالا تھا
میں نے آدرش کے حسن کو تباہ کر ڈالا تھا
میں نے خود کو خود سے فنا کر ڈالا تھا
اور ایک بار پھر
محنت اور ثمر کا جوالہ تھا
اب میں مقرر سے پروفیسر ہو گیا تھا
میں اخبارات میں کالموں کا رائیٹر ہو گیا تھا
اور
ایک بار پھر اپنے شہر کی طرح شہرت کا حوالہ ہو گیا تھا
میں حرفوں کی بھیڑ میں لفظوں کا جوالہ ہو گیا تھا
یعنی کہ دوستو!
قدرت کا ایک بار پھر سنبھالہ ہو گیا تھا
پھر
کوہستانیوں کو FM سے دی میں نے صدا
اور پہلا پروگرام تھا “حی الفلاح”
دوسرا پروگرام تھا “حدیث وفا”
یہ سلسلہ بڑھتا چلا جا رہا تھا
اور میرا شخصی سلسلہ۔۔۔۔
وادی کی بہاروں میں چڑھتا چلا جا رہا تھا
دوستو!
جس وادی میں میں مہمان ٹھہرا
وہاں تھا خوارج کا پہرہ
پھر انداز بدلہ گیا
خرد کا لباس بدلہ گیا
علم جہاد بلند ہوا
میں پھر اک راستے کا پابند ہوا
حق نے کیا مجھے غالب
میں اپنے صاحب کا ہو گیا طالب
پھر صاحب نے اک رستے پہ ڈال دیا
وہ جو ملک ملک لڑ رہا تھا اس کا حال دیا
میں اس کا سپاہی بن چکا تھا
میں انقلاب کا راہی بن چکا تھا
وہ ملک ملک تھا تو میں وفا کی وادی میں برسر پیکار
ایک سے دو بنایا تھا اک لشکر جرار
یعنی کہ
میں “بیداری شعور” کے جہاد کا حصہ تھا
میں انقلاب کے افراد کا حصہ تھا
میں ترجمان تحریک تھا
اپنے صاحب کے بڑا نزدیک تھا
میں نے وہاں “تکمیل پاکستان فورم” بنایا تھا
اس فورم پہ ہر طبقے ، ہر فرقے کے افراد کو لایا تھا
پوری وادی میں اتحاد کا شور مچایا تھا
اور پھر
جب وہ ملک واپس لوٹا تھا
وہ بہت بڑا اور میں بہت چھوٹا تھا
پر !
جذبات کا رنگ ایسا تھا
خیالات کا ڈھنگ ایسا تھا
میرا وادی ، وادی قیام ٹھہرا
میں فقط موسی اور میرا کلام سارا
اور
افرادی قوت کا ہر طرف نظارہ تھا
اور
لاہور آتے 77 گاڑیوں کا قافلہ ہمارا تھا
دسمبر کا مہینہ تھا تھا
اس کی یادیں اور میرا جینا تھا
پھر 23 دسمبر 2012ء آ پہنچا
میرا قلندر آ پہنچا
مینار پاکستان تھا
وہ میرا دل اور میری جان تھا
دوستو!۔۔۔۔۔۔۔پھر
23 دسمبر سے 14 جنوری اک نئی کہانی تھی
ہماری زندگی بھی موت کی جوانی تھی
پھر دوستو!
یزیدیت کا سراب دیکھا تھا
قوم نے منافقت کا عذاب دیکھا تھا
اور پھر
گزرتے وقت کی تھی صدا
لوگ کہتے تھے ٹھیک تھی قلندر کی ادا
پھر
محقق بھی بولے
مفکر بھی بولے
علم کے سارے تفکر بھی بولے
کہ
بن انقلاب ہیں سارے رولے
سیاست بھی چمکی ، قیادت بھی چمکی
کہ
ٹھیک ہے قلندر کی دھمکی
اسی دوران میرے دوستوں نے فیصلہ کیا
میرا گھر آباد کرنے کا
مجھے غموں سے آزاد کرنے کا
میرے مطابق رشتہ کیا تلاش
رشتہ ایسا کہ جس نے کبھی نہ دی مجھے کوئی خراش
اور پھر
14 اپریل 2014ء تھی شادی
شادی ایسی کہ
مجھکو مقاصد میں ملی ہر دم آزادی
اس سلسلے میں دوست سارے ہی تھے پیش پیش
مگر مرسلین تھا اس میں ہمیش ہمیش
اسی دوران میں نے روزنامہ رہبر اخبار نکالا تھا
جو میرے انقلابی مقاصد کا جوالہ تھا
اسی اثناء میں
جب قلندر تھا مغرب میں مصروف
علم میں ہوگیا تھا ہر طرف معروف
اور
ادھر حکم تھا نماز انقلاب کی تیاری کا
آنیوالی ظلمت کی باری کا
مگر
باطل بڑا ہوشیار نکلا
ہمارے لیے خونخوار نکلا
اور
17 جون آن پہنچی
14 شہیدوں کی آن پہنچی
ماڈل ٹاؤن بنا کربلا
خون تھا ہر طرف بکھرا پڑا
پھر
لہو رنگ نے آوازہ کیا
قلندر کو دی صدا اور جنازہ کیا
پھر
23 جون تھی قلندر کی آمد
باطل کی زندگی ہو گئی تھی جامد
ہائے
ایک بار پھر 23 جون بنا باطل کی ظلمت کا نشان
کہ
ہمارا ہر جسم تھا لہولہان
سنو دوستو!
پھر 10 اگست یوم شہداء آگیا
پورے ملک میں ہر طرف کو ظلمت کدہ بنا گیا
پھر
14 اگست کو ہوا خروج
ہر طرف تھا ظلمت کا عروج
پھر
72 دن کا دھرنا ہوا
7 شہیدوں کا لڑنا ہوا
مگر اس نظام کا نہ مرنا ہوا
اور
پھر اقبال کی تھی آمد
ہنگامی بنیادوں پہ ہوئی لاہور میں زندگی جامد
اب پھر
الشاہ انوار اقبال کا میزبان بن کر آیا تھا
ہمیں مشکلوں سے نکالا اور سایہ بن کر چھایا تھا
اقبال کون ہے کیا ہے ہمیں بتایا تھا
میں ہوں لاہور میں تمہارا میزبان ہم کو سمجھایا تھا
پھر۔۔۔
2 ربیع الاول 25 دسمبر 2014ء اقبال کا آنا ہوا
یہ زندگی کا پھر اک تانا بانا ہوا
الشاہ انوار نے اقبال کے کانوں میں دی آزان
مرسلین نے بانٹی مٹھائی اور بانٹے محبت کے ارمان
پھر ۔۔۔۔
لاہور اقبال کا مسکن ہو گیا
اور میں اقبال کی خدمت میں کھو گیا
وقت گزرا اور گزرتا جا رہا تھا
سپر ایشیا کمپنی سے چھوٹی جان اور خوف مٹتا جا رہا
سنو دوستو!
میں 5 سالہ ظلم سے باہر نکلا تھا
اپنے 5 سالہ علم سے باہر نکلا تھا
دل کا مرض جاری ہو چکا تھا
میں ظلم و ستم سے عاری ہو چکا تھا
پہلے ماں باپ کی محبت میں ہوا کمزور
اب اقبال کی محبت نے کیا کمزور
اور میں اپنی دھرتی واپس نہ لوٹا اور رہ گیا لاہور
اور اب زندگی کے ایک نئے عمل میں قدم تھا
اور نظریاتی تسلسل کے سفر میں اقبال میرا ہم قدم تھا
ادارے بدلے کالج بدلے
تجربے اور زندگی کے نالج بدلے
بدلی سوچیں اور قومی ناسوروں کے فالج بدلے
اور
اب تلک جہاد جاری ہے
اب پھر جدوجہد شعور کی بیداری ہے
قلندر سیاست سے عاری ہے
اور
تحفظ ریاست ہم سب پہ طاری ہے
اور
دوسری طرف قوم میں فساد جاری ہے
میں اپنی منزل کی قربتوں میں ہوں
میں حق کے راہی کی صحبتوں۔میں ہوں
لیکن۔۔۔۔!
تمہیں جو یہ لگے کہ
میں بے وفا ہوں
اداس کلیوں کو چھوڑ کر
نئی بہاروں کو ڈھونڈتا ہوں
یا یہ لگے کہ
اپنوں کو چھوڑ کر دوسروں کا ہمنوا ہوں
یا یہ لگے کہ
میں زندگی کے چمن کی بہاروں میں کھو گیا ہوں
تو سنو دوستو۔۔۔۔۔۔۔۔ !
حقیقت میں اس چمن کے تمام پھولوں کی خواہشوں کا
حسین موسموں کی بارشوں کا
حسین لوگوں کے چہروں کا
نہ میرے دل پر اثر ہوا تھا
نہ میرے دل پر اثر ہوا ہے
میں آج بھی اس نئے چمن میں
پرانے قصے سنا رہا ہوں
میں دھرتی کلاسوالہ میں نہیں ہوں
مگر پھر بھی دھرتی کلاسوالہ میں ہی رہا ہوں
یقین نہ آئے تو مڑ کے دیکھو
وہیں کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہیں کھڑا ہوں