احمدآباد آج ساٹھ لاکھ کی آبادی کا شہر ہے۔ آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے یہاں پرانے ادارے تھے۔ صراف اور مہاجن کاربار پر حاوی تھے۔ اشیا کی جانور...
احمدآباد آج ساٹھ لاکھ کی آبادی کا شہر ہے۔ آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے یہاں پرانے ادارے تھے۔ صراف اور مہاجن کاربار پر حاوی تھے۔ اشیا کی جانوروں پر لاد کر کچے راستوں پر دوسرے علاقوں سے تجارت ہوتی تھی۔ لکڑی کے گھر جن پر روغن نہیں ہوا کرتا تھا۔ شہر کی فصیل پر گارڈ پہرا دیا کرتے تھے۔ پھر یہ سب بدل گیا۔
تیس مئی 1861 کو رنچودلال چھوٹالال نے پہلی بار بھاپ سے چلنے والی سٹیم مشینوں کا آرڈر دیا۔ چھوٹا لال چند سال قبل سرکاری دفتر میں ایک نوجوان کلرک تھے۔ انہوں نے یہ آئیڈیا پیش کیا تھا کہ یہاں پر ایک سپننگ مِل لگائی جائے۔ انہوں نے ممبئی میں کاٹن مل دیکھی تھیں اور ان کے خیال میں یہ مشینیں ہندوستان کی تقدیر بدل سکتی تھیں اور خود انہیں بہت امیر کر سکتی تھیں۔ انہیں اپنے آئیڈیا کے حق میں کچھ تاجر اور بینکار مل گئے۔ اس سرمائے سے چھوٹالال نے برطانیہ سے مشینری آرڈر کی۔ اور ساتھ ہی برطانوی مکینک کی ٹیم منگوائی۔ چند ماہ بعد بیل گاڑیوں کے قافلے میں ان کی مشینری احمدآباد پہنچ رہی تھی۔
یہ شاپور مِل تھی۔ یہاں پر 65 مزدوروں نے 2500 تکلوں کی مشینوں کو 1861 میں حرکت دی۔ ممبئی کے معیار سے یہ ایک چھوٹی مل تھی۔ لیکن اس میں ایک چیز تھی جس نے مستقبل کی سرمایہ کاری کا چراغ بنا دیا۔ یہ ابتدا سے ہی منافع بخش تھی۔ 1865 تک اس مل میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد 300 ہو چکی تھی۔ تکلوں کی تعداد دس ہزار۔ اس کے ساتھ ایک سو پاور لوم بھی لگائی جا چکی تھیں۔
احمدآباد دنیا میں کاٹن مینوفیکچرنگ کی شاندار جگہ بننے کی راہ پر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمدآباد میں کپاس کی تجارت کی پرانی روایت تھی۔ تاجر تنظیم تھی۔ کئی مقامی تاجر کپاس کی تجارت سے اچھی خاصی دولت کماتے تھے۔ اس شہر کو برٹش نے 1818 میں مرہٹوں سے حاصل کیا تھا۔ اور یہ تاجر ویسے ہی کام کرتے رہے تھے۔
چھوٹالال کی کامیابی کے بعد بھی ابتدائی برسوں میں یہ تاجر طبقہ صنعت میں سرمایہ کاری سے ہچکچاتا رہا۔ لیکن جب 1870 کی دہائی کا بحران آیا اور ساہوکاروں کے کام میں منافع ویسا نہ رہا تو سرمایے کا رخ بھی بدل گیا۔
جین تاجر معشوق بھائی اور جمنا بھائی بھاگو بھائی تاجر طبقے سے صنعت میں آنے والے پہلے تھے۔ انہوں نے 1877 میں گجرات سپننگ اینڈ ویونگ کمپنی کھولی۔
اس کے بعد جلد ہی دوسرے تاجر اس طرف آنے لگے۔ پرانا سرمایہ اب ٹیکسٹائل کی صنعت کی طرف جا رہا تھا۔ اس صنعت پر ویشناو بنیے اور جین حاوی تھے۔ جین کانفرنس اور گجرات ویشیا سبھا جیسی تنظیمیں بنیں۔ 1918 تک دریائے سبامرتی کے کنارے اکاون کاٹن مل لگ چکی تھیں۔ پینتیس ہزار مزدور روزانہ ان کارخانوں میں داخل ہوتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح کپاس کی پیداوار دنیا میں پھیلی تھی، ویسے ہی مانچسٹر کا یہ ماڈل بھی۔ اور اس نے ٹیکسٹائل کی صنعت پر یورپ اور امریکہ کا غلبہ ڈھیلا کر دیا تھا۔
دنیا میں 1861 میں مشینی تکلوں کا 61 فیصد برطانیہ میں ہوا کرتا تھا۔ یہ 1900 میں گر کر 43 فیصد رہا گیا تھا اور 1930 میں 34 فیصد۔ برطانوی مشینیں پرانی ہو رہی تھیں۔ مزدوروں کی جدوجہد کا یہ مطلب تھا کہ کام بھی کم ہو رہا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ عالمی پیداوار میں اس کا حصہ گر رہا تھا کیونکہ یہ مشینیں زیادہ دیر فارغ رہتیں۔ 1932 میں عالمی پیداوار میں برطانیہ کا حصہ گر کر صرف 11 فیصد پر آ گیا تھا۔ اور یہ تباہ کن تھا۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد اس کی صنعتی برآمد گر کر نصف رہ گئی تھی۔
صنعتیں غائب ہونے لگیں۔ 1939 تک صنعت میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد بیس سال پہلے کے مقابلے میں پینتالیس فیصد گر چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانیہ کو پیداوار کے تخت سے گرانے والے ممالک میں جاپان بھی تھا۔ 1880 میں یہاں پیداوار نہ ہونے کے برابر تھی جبکہ اگلے پچاس سال میں عالمی پیدوار کا 4.3 فیصد اس کے پاس تھا۔ جرمنی، فرانس اور روس کے بعد اس کا نمبر تھا۔ انڈیا بھی تیزی سے بڑھ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صنعت خود نئے اور اگلے دور میں داخل ہو رہی تھی۔ بڑے سٹیل ملز، کیمیکل پلانٹ اور برقی مشینری کی انڈسٹری کے دور میں ٹیکسٹائل کی اہمیت اتنی نہیں رہی تھی۔
انیسویں صدی کے وسط میں یورپ عظمت کے خبط میں مبتلا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ مقامی حالات، جغرافیہ، مذہبی عقائد اور کلچرلی بہتر ہونا ایسی وجوہات تھیں جس باعث صنعت پر ان کی برتری ہمیشہ قائم رہے گی۔ کپاس کی سلطنت نے انہیں غلط ثابت کر دینا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: قیامِ پاکستان کے وقت موجودہ پاکستان کے علاقے میں پانچ بڑی اور گیارہ گھریلو ٹیکسٹائل مل تھیں۔ سب سے پہلی لائل پور ٹیکسٹائل مل تھی جو 1934 میں لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں قائم ہوئی۔ یہ دہلی کلاتھ اینڈ جنرل مل کی برانچ تھی۔ اس مل کی تصویر ساتھ لگی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے پاس چار دوسری ملز یہ تھیں۔
دولت رام سپننگ اینڈ ویونگ ملز، کراچی
میلا رام کاٹن ملز، لاہور
پنجاب ٹیکسٹائل مل، کوٹ دونی چند، لاہور
ستلج کاٹن ملز، اوکاڑہ۔
جب پاکستان نے لائل پور کو صنعتی زون قرار دیا تو یہاں 1950 کی دہائی میں صنعتکاری ہوئی جس میں لگنے والے بڑے نام کوہِ نور ٹیکسٹائل، کریسنٹ ملز، نشاط ملز، زینت ٹیکسٹائل، ابراہیم فیبرک، ستارہ ٹیکسٹائل، پریمئیر کلاتھ ملز، رحمانیہ ٹیکسٹائل ملز اور بعد میں منو گروپ کی فیکٹریاں تھیں۔