اٹھارہویں صدی میں اور انیسویں صدی کے پہلے نصف میں کپاس کے سودے ایک فزیکل جنس کے طور پر ہوتے تھے۔ تاجر اس کی قیمت ریشے کی لمبائی، رنگ، صفائی ...
اٹھارہویں صدی میں اور انیسویں صدی کے پہلے نصف میں کپاس کے سودے ایک فزیکل جنس کے طور پر ہوتے تھے۔ تاجر اس کی قیمت ریشے کی لمبائی، رنگ، صفائی اور الاسٹسٹی جیسی چیزوں پر لگاتے تھے۔ جب کاروبار بڑھا تو اس کو کرنے کا طریقہ بھی۔ ہر تھیلے کو کھول کر چیک کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ نئے حل آئے۔ ڈیلر کی جگہ بروکر نے لے لی۔
واضح سٹینڈرڈ وضع کئے گئے۔ ڈکشنری بنائی گئی۔ سودے میں معیار طے ہوتا تھا۔ صرف سیمپل چیک کئے جاتے تھے۔ ان کے بغیر طویل فاصلوں پر بڑی مقدار والے سودے ممکن نہ تھے۔
کوالٹی انسپکشن، رولز، ریگولیشن جیسی چیزیں آئیں۔ پہلے یہ غیررسمی تھیں۔ 1844 تک لیورپول کاٹن بروکرز ایسوسی ایشن سٹینڈرڈ بنا چکی تھی۔ “درمیانہ” درجے کی کاٹن کا کیا مطلب ہے، “fair” کونسی ہے۔
ایک بار یہ طے ہو گئے تو ان کو انٹرنیشنل کرنے کی کوشش شروع ہو گئی۔ 1848 میں امریکی چیمبر آف کامرس نے ووٹ دیا کہ وہ بھی یہی سٹینڈرڈ اپنا لیں گے۔ اور یہ وہ جدت تھی جس نے جلد ہی پودے کو تبدیل کر دینا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاٹن سٹینڈرڈ بننے کے ساتھ ہی ایک اور جدت ابھری۔ انفارمیشن اور سیمپل کو سامان سے پہلے پہنچنا تھا۔ یہ مستقبل میں کئے گئے سودوں کی جدت تھی۔ مشینی پروڈکشن کو قابلِ بھروسہ سپلائی اور قیمت کے استحکام کی ضرورت تھی تا کہ وہ اپنے کاروبار اور قیمتوں کو استحکام دے سکیں۔ جہاز پر سیمپل بھیج کر سودے کئے جانے لگے جس میں کئی مہینوں بعد آنے والی فصل کا سودا طے ہو جاتا تھا۔ کاروبار کا پہیہ تیز رفتار سے چلائے رکھنے کے لئے یہ کاروبار کی تجریدی جدت تھی۔
جس طرح انیسویں صدی بڑھتی گئی، یورپی تاجروں کو اس میں مقابلے کا سامنا ہونا شروع ہو گیا۔ اور یہ مقابلہ ایک بڑی غیرمتوقع سمت سے آیا تھا۔ یہ جگہ بحرِ اوقیانوس کے پار کا نیا ملک امریکہ تھا۔ نیویارک، بوسٹن اور دوسرے شہروں کے کاٹن ٹریڈر بھی کپاس کے رقص کا حصہ بن رہے تھے۔ ان میں سب سے اہم مرچنٹ ہاوس آئرش تارکِ وطن الیگزنڈر براوٗن کا قائم کردہ براوٗن ہاوٗس تھا۔
اس سے کمائی گئی بے انتہا دولت سے براوٗن فیملی نے بینک بنائے، ٹرین کی پٹری بنائی، صنعتیں لگائیں اور کلچرل ادارے بنائے۔
گلوبلائزیشن کے اس دور میں سب سے زیادہ کامیاب ہونے والے وہ تھے جو گلوبلائزر تھے۔ نہ ہی یہ کاشتکار تھے، نہ صنعتکار۔ اکثر اوقات یہ مقامی مائنڈ سیٹ والے ہی تھے لیکن یہ وہ لوگ تھے جو دنیا کی اس تنظیمِ نو سے مواقع ڈھونڈ سکے تھے اور ان کی سپیشلائزیشن ایسے نیٹورک بنانے میں تھی جو پیداوار کی زنجیر کو مکمل کر سکے۔ اور اس کے لئے ہمت اور تصور کی طاقت درکار تھی۔ یہ نیٹورک بنانا انتہائی مشکل کام تھا۔
اور اس میں انفارمیشن کا بہت اہم کردار تھا۔ کس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ کون ادائیگی کر دے گا؟ کون مال وقت پر دے گا؟ آئندہ کپاس کی فصل کیسی ہو گی؟ کہاں بارش کتنی ہوئی ہے؟ قیمت کا اتار چڑھاوٗ کس سمت میں ہے؟ کہاں جنگ کا خطرہ ہے؟ کہاں پر معیشت کس رخ جا رہی ہے؟
لکھے ہوئے دسیوں لاکھ ایسی انفارمیشن والے خطوط آج کئی لائیبریریوں اور آرکائیو کے تاریک کونوں کا حصہ ہیں اور پڑھے جا سکتے ہیں۔ افواہوں اور گپ شپ کے درمیان قابلِ اعتبار انفارمیشن بہت ہی قیمتی شے تھی۔
کامیابی اس کے لئے تھی جو اس سب کے ٹکڑے جوڑ سکے۔
آخر تیزرفتار بحری جہازوں کی وجہ سے ممبئی اور لندن کے درمیان صرف 35 روز کا فاصلہ ہی تو رہ گیا تھا۔
(جاری ہے)