کس نے تھیبس کی سات دروازوں والی فصیل بنائی؟ کتابوں میں تو صرف بادشاہوں کے نام آتے ہیں۔ کیا بادشاہ پتھر اٹھا کر لائے تھے؟ اور بابل کتنی ہی ب...
کس نے تھیبس کی سات دروازوں والی فصیل بنائی؟
کتابوں میں تو صرف بادشاہوں کے نام آتے ہیں۔
کیا بادشاہ پتھر اٹھا کر لائے تھے؟
اور بابل کتنی ہی بار تباہ ہوا
کس نے ہر بار اسے واپس تعمیر کیا؟
لیما کے معمار کونسے سنہرے گھروں میں رہتے ہیں؟
۔برٹولٹ بریکٹ (مزدور جو پڑھ سکتا ہے) ۔ 1935
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کی کتابیں ان لوگوں کی کہانیوں سے بھری ہوئی ہیں جس نے کپاس کے پودے کے منفرد تحائف کے استعمال کے طریقے بنائے۔ رچرڈ آرک رائٹ، ایلی وہٹنی، فرانسس لوول، جان رائی لینڈز جیسے لوگ۔ لیکن ہر سلطنت کی طرف یہ کروڑوں گمنام مزدوروں کے کاندھوں پر کھڑی تھی۔
بریکٹ کے مزدوروں اور معماروں کی طرح ہی تاریخ کی کتابوں میں شاذ ہی کسی کاٹن ورکر کا نام داخل ہوا ہے۔ زیادہ تر کا کوئی نشان نہیں۔ عام طور پر یہ ان پڑھ تھے۔ اور ان کی زندگی میں جاگنے کا وقت اپنے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے میں صرف ہوا۔ ان کے پاس ڈائری یا خطوط لکھنے کی نہ صلاحیت تھی اور نہ ہی اس کا وقت۔ آج ایک افسردہ نظارہ مانچسٹر میں سینٹ مائیکلز فلیگز ہے۔ یہ ایک چھوٹا پارک ہے جس میں چالیس ہزار لوگ دفن ہیں جن میں اکثریت کاٹن ورکرز کی ہے۔ بے نام و نشان قبروں میں ایک دوسرے کے اوپر دفن ہیں۔ “ان کی تدفین بھی ایک صنعتی پراسس تھا۔ زندہ رہنے کے لئے اپنی زندگی فیکٹری میں کھپا دینے والے یہ انگریز مزدور انگریزی سلطنت کے غلبے کا انجن تھے”۔
ایلن ہوٹن ایک استثنا تھیں۔ ان کا نام تاریخ میں اس وقت داخل ہوا جب جون 1833 کو انہیں شاہی انکوائری کمیشن کے آگے طلب کیا گیا۔ اس کمیشن کا کام فیکٹریوں میں چائلڈ لیبر کی تفتیش تھا۔ جب وہ کمیٹی کے آگے پیش ہوئیں تو ان کی عمر صرف دس سال تھی۔ خوفزدہ ہوٹن ایک تجربہ کار مزدور تھیں۔ انہیں دو برس ہو چکے تھے۔ چائلڈ لیبر کے خلاف مانچسٹر میں ایک مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی تنظیم کام کر رہی تھی۔ ہوٹن کے کیس نے توجہ حاصل کی تھی۔ اس این جی او کا کہنا تھا کہ ہوٹن عملی طور پر غلام تھیں اور وہ صرف محاوراتی نہیں، عملی زنجیروں میں بھی باندھی گئی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمیشن نے ایلن ہوٹن کو بلایا۔ ان کے والدہ میری ہوٹن کو۔ ایلن کے سپروائزر ولیم سوینٹن کو اور فیکٹری مینجر جان فنچ کو۔ ایلن ہوٹن اپنی والدہ کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ والدہ خود بنائی کا کام کرتی تھیں جس سے بمشکل گزارہ پورا ہوتا تھا۔ والد الگ ہو چکے تھے۔ جب تک ایلن سات سال کی تھیں تو والد کچھ خرچ دیا کرتے تھے۔ جب یہ بند ہو گیا تو والدہ اپنی بیٹی کو قریبی فیکٹری لے گئیں تا کہ کچھ آمدنی آ سکے۔
طے یہ ہوا کہ ایلن پہلے پانچ ماہ بغیر کسی اجرت کے کام کریں گی۔ اس دوران کام سیکھیں گی۔ انہیں ایکلز سپیننگ مل میں ملازمت مل گئی۔
ایلن کا کام صبح ساڑھے پانچ شروع ہوتا تھا اور رات آٹھ بجے ختم ہوتا تھا۔ درمیان میں دو وقفے تھے۔ ایک ناشتے کے لئے، دوسرا لنچ کے لئے۔ ان کے کمرے میں پچیس مزدور تھے جن میں سے تین بالغ تھے۔ ایلن کا کام یہ تھا کہ جب میول سے دھاگہ ٹوٹ جائے تو اسے دوبارہ باندھنا۔ یہ بہت محنت طلب کام تھا۔ ایک منٹ میں یہ چند بار ہوتا تھا اور اسے ٹھیک کرنے کے لئے چند سیکنڈ کا وقت ہوتا تھا۔
مشین کی رفتار کے ساتھ کام کرنا بہت مشکل تھا۔ اور اگر وہ مشین کی رفتار کے ساتھ دھاگے کو مرمت نہیں کر سکتی تھیں تو یہ مہنگی غلطی تھی۔ ہفتے میں دو بار ان کی سوانٹن کے ہاتھوں پٹائی ہو جاتی تھی۔ انکوائری میں سوانٹن نے اقرار کیا کہ وہ ایک بیلٹ سے پیٹتے تھے لیکن اس سے انکار کیا کہ یہ اتنی زیادہ بار ہوتا تھا۔
ایلن کی ماں نے اپنی بیٹی کو “نادان شرارتی بچی” کہا۔ اور کہا کہ انہیں اس مارپیٹ پر اعتراض نہیں تھا اور انہوں نے سوانٹن کو کہا تھا کہ وہ بچی کے ساتھ زیادہ سخت رویہ رکھیں تا کہ اس کی بھاگ جانے کی عادت ختم ہو۔ میری ہوٹن کے لئے بھی زندگی آسان نہیں تھی۔ انہیں اپنی بیٹی کی آمدنی کی ضرورت تھی۔ انہوں نے سوانٹن کی کئی بار سماجت کی تھی کہ ایلن کو ملازمت سے نکالا نہ جائے۔
ایلن کے ساتھ اس پٹائی سے زیادہ برا سلوک ہوتا تھا۔ ایک روز جب انہیں کام پر آنے میں تاخیر ہو گئی تو سوانٹن نے ان کی گردن کے ساتھ لوہے کا وزن لٹکا دیا اور مجبور کیا کہ وہ فیکٹری میں اسی طرح پھریں۔ دوسرے بچے آوازے کستے۔ اس دوران وہ کئی بار گریں۔ دوسرے بچوں سے ان کی ہاتھاپائی ہوتی۔
دو سو سال پہلے کی اس بچی کی تکلیف دہ اور تشدد بھری زندگی کا تصور ہمارے لئے آسان نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کے مانچسٹر میں کاٹن کی صنعت کی اہم کرداروں کو ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ ایلن ہوٹن کی زندگی سے کم ہی مورخین واقف ہیں۔ لیکن ان کی اور ان جیسے دسیوں لاکھ دوسرے بچوں، خواتین اور حضرات کی محنت کے بغیر کاٹن کی سلطنت وجود میں نہ آ سکتی۔ ایلن کی کہانی جسمانی تشدد کی ہی نہیں، معاشی بدحالی کی بھی ہے جو مزدوروں کو فیکٹریوں میں دن رات کام کرنے پر مجبور کرتی تھی۔ ان فیکٹریوں میں جہاں پر انہوں نے اپنی زندگی اس کپاس کی سلطنت بنانے میں گزار دی۔
(جاری ہے)