صنعت لگنے کا مطلب یہ تھا کہ گھریلو کاریگروں کا کام ختم ہو رہا تھا۔ ان کی جگہ اب بڑے کارخانے لے رہے تھے اور اس کے لئے ایک اور اہم چیز کی ضرور...
صنعت لگنے کا مطلب یہ تھا کہ گھریلو کاریگروں کا کام ختم ہو رہا تھا۔ ان کی جگہ اب بڑے کارخانے لے رہے تھے اور اس کے لئے ایک اور اہم چیز کی ضرورت تھی۔ سرمائے کی۔
عمارت بنائی جانی تھی۔ نہر کا رخ موڑے جانا تھا۔ مشین تیار ہونی تھی۔ مزدوروں کو بھرتی کئے جانا تھا۔ خام مال کی سپلائی بننی تھی۔ ماہرین کو ملازم رکھنا تھا اور کئی بار دوسرے ممالک سے انہیں لایا جاتا تھا۔ بغیر سرمایے کے صنعت کا تصور نہیں تھا۔
صنعتکار عام طور پر کاریگر تھے یا چھوٹے تاجر۔ آڑھتی یا بڑے تاجر سرمایہ مہیا کرتے۔ صنعتکاری غریب سے امیر بننے کا راستہ تھا۔ ملہاوس میں کاریگر اس پیشے میں آئی۔ روس میں کیتھرین دوئم کے حکمنامے کے بعد آزاد ہو جانے والے غلام تجارت کی طرف گئے تھے۔ وہ اس پیشے میں آئے۔ سویٹزرلینڈ میں ہینریچ کونز نے روزانہ اجرت کے مزدور سے شروع کیا تھا جہاں سے کاٹن مینوفیکچرنگ کی طرف گئے۔ جب ان کی وفات 1859 میں ہوئی تو ان کے پاس دو ہزار ملازمین کام کر رہے تھے۔
امریکہ میں بھی یہ ایسا ہی رہا۔ ایسی کامیابیاں دوسروں کے لئے کشش رکھتی تھیں۔ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ جاگیردار اور زمین کی ملکیت موروثی ہوتی تھی۔ حکمران خاندان ہوتے تھے۔ صنعتکاری صرف “خاندانی لوگوں” کی اشرافیہ کے لئے نہیں تھی۔ ایک اور نیا پیشہ ان کا تھا جو ان مصنوعات کے سودے کرتے تھے۔ 1815 میں مانچسٹر میں 1500 شوروم تھے۔ اس سب میں تعلقات کا نیٹورک اس میں بہت اہمیت رکھتا تھا۔ صنعتکار، سرمایہ دار، کاٹن مرچنٹ طبقے کا عروج اکٹھا ہوا۔ یہ نیا جنم لینے والا ٹیکسٹائل کا طبقہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانوی مشینوں کے ڈیزائن کاپی کئے جاتے تھے۔ 1843 میں برطانیہ نے ٹیکسٹائل مشینری کی برآمدات کی اجازت دی۔ برٹش انجنیرنگ کمپنیوں کی عالمی بزنس میں آمد ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی کے لئے اچھی خبر تھی۔
ایک بار ٹیکنالوجی پھیل گئی تو مقامی مشین تیار کرنے والوں کی طرف سے اس میں اختراعات آنے لگیں۔ ٹیکنالوجی میں نہ رکنے والی جدتیں صنعتی کیپٹلزم کا ایک اور خاصا ہے۔ صنعتی کیپٹلزم اپنے پر پھیلا چکا تھا۔
صنعت کے لئے ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ سرمایے کی دستیابی کی ضرورت تھی۔ پاپوا نیوگنی یا کاگو یا امریکہ کے اندرونی حصوں میں ایسے حالات نہیں تھے۔ یہاں صنعتکاری نہیں ہوئی۔
جہاں حالات سازگار تھے، جیسا کہ جاپان میں اوساکا، ہندوستان میں احمدآباد یا نائیجیریا میں کانو، وہاں پر بھی انیسویں صدی میں کوئی صنعتکاری نہیں کی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستان، چین اور عثمانی سلطنت میں آخر کیوں صنعت نہیں لگی؟ اس سوال کے جواب کے لئے کہیں اور دیکھنا ہو گا۔
برطانیہ کی مثال دکھاتی ہے کہ اس کے لئے ایسی ریاست درکار ہے جو صنعتکاری کے لئے موزوں حالات فراہم کر سکے۔ طاقتور ریاست جو قانون، بیوروکریسی، انفراسٹرکچر اور ملٹری دے سکے جن کی اپنے علاقے پر مضبوط گرفت ہو۔ اس کے بغیر صنعتکاری کا تصور محال ہے۔
محفوظ سرحدیں، منڈیوں تک رسائی، محصول اکٹھا کرنے کے اوزار، مقامی صنعت لگانے اور سرمایے کی حفاظت کا ماحول اور کام کرنے والے محنت کشوں کو موبلائز کرنے کے طریقے انتہائی اہم رہے۔ کونسی علاقے میں صنعت کی حفاظت اور فروغ کی پالیسیاں رہیں؟ اس کا تعلق اس سے بھی تھا کہ کونسی جگہ پر حکومت میں اس نئے طبقے کا کتنا اثر و رسوخ تھا۔ اس میں میکسیکو اور عثمانی سلطنت کا موازنہ دیکھا جا سکتا ہے جہاں کپاس بڑی مقدار میں پیدا ہوتی تھی۔
(جاری ہے)