Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

قسط نمبر 2 کلاسوالہ کے ماضی ، حال اور مستقبل پر سلسلہ وار دلچسپ تحریر

کلاسوالہ کے ماضی ، حال اور مستقبل پر سلسلہ وار دلچسپ تحریر اگر ہم قصبات کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ قصبات (سمال ٹاؤن) ہمیشہ ...

کلاسوالہ کے ماضی ، حال اور مستقبل پر سلسلہ وار دلچسپ تحریر
اگر ہم قصبات کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ قصبات (سمال ٹاؤن) ہمیشہ ریاست کا بنیادی کردار رہے ہیں اور خاص طور پر جب ہم جمہوریت اور اقتدار کی نچلے درجے پر منتقلی کی بات کرتے ہیں تو یہ بات اور واضح ہو جاتی ہے کہ چھوٹے چھوٹے قصبات نظام جمہوریت کا بنیادی حصہ ہیں لہذا ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سمال ٹاؤن (چھوٹے قصبات) شہری ریاستوں سے لے کر عظیم وفاق تک بنیادی اہمیت کے حامل ہیں انہی امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم کلاسوالہ کا تاریخی جائزہ لیتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کے اکبر کے زمانے سے بہت پہلے ڈوگروں کے ڈیرے کے ویران ملبے پر بسنے والی بستی کلاسوالہ ، جس کو رنجیت سنگھ کی بہو رانی مائی جنداں کے رشتہ داروں نے اپنے خاندانی بڑے کلاس نامی شخص کے نام پر “کلاس دا ڈیرہ”آباد کیا جو بعد میں کلاسوالہ بن گیا۔
کلاسوالہ عہد در عہد نت نئے حالات سے گزرا کبھی اس نے رنجیت دیو کی ظلمتوں کے زخم سہے اور کبھی مائی جنداں کی وجہ سے رنجیت سنگھ کا مطمئع نظر ٹھہرا ،کبھی چاروں طرف دور دور تک باغات ہونے کی وجہ سے باغات نگر کہلایا تو کبھی پنجاب بھر میں اپنی اہمیت کی وجہ سے انگریزوں کے قبضے کے وقت توپوں کی بھمنبھارمنٹ اس کے مقدر کا حصہ بنی ، مائی جنداں کے خاندان کی چوہدراہٹوں سے اس کے پنچائیتی معاشرے کا آغاز ہوا اور انگریز کی آنریری عدالت کی تاریخ اس کا حصہ بنی اور اگلے وقتوں میں انگریز نے اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کو سمال ٹاؤن کا درجہ دے دیا ، پنجاب کی آزادی کی جنگ میں ایک بڑا نام “جھنڈا سنگھ” کا تعلق بھی اسی دھرتی سے تھا۔
اسی طرح انگریز کی غلامی کے زخم چاٹنے کے بعد 1857 کی جنگ آزادی کے 90 سالہ دور کے بعد جب اس دھرتی پر ایک بار پھر آزادی کا ذوق پیدا ہو رہا تھا دھرتی کلاسوالہ نے قائد اعظم کو پاکستان کا جھنڈا دینے والے محدث علی پوری اور کی قربت کا موسم دیکھا اور کلاسوالہ محدث علی پوری کے جلسوں کا مرکز بنا۔
اس دھرتی نے عروج و زوال اور مکافات کے عمل کی چکی چلتی دیکھی اور اور بہت سی وبائیں اور قحط اس کے مختلف ادوار سے گزرے ، دنیاوی عروج و زوال کے علاوہ الوہی اور حقیقی محبتیں بھی اس کے حصے میں آئی ، اس دھرتی پر کہیں جانے شاہ کا مجذوبانہ رقص تھا تو کہیں شاہ گہنہ کے تصوف کے راج کو اس دھرتی کے بام و در بیان کر رہے تھے ، اسی دھرتی پر امن و محبت کا گیت گانے والے مولانا عبدالحئی کی کہانی لوک ادب کا حصہ بنی ، اسی دھرتی پر بابا عطر سنگھ نے حلقہ بگوش اسلام کا عظیم نمونہ پیش کیا اور اسی دھرتی پر سردار بوٹا سنگھ نے اسلام سے اپنی گہری محبت کا عملی نمونہ پیش کیا اور اسی طرح سب سے بڑی بات کہ عالم اسلام کا ایک درخشندہ ستارہ جس روشنی نے سارے عالم اسلام کو متاثر کیا ، جن کو دنیا آج قطب مدینہ ضیاالدین مدنی کے نام سے جانتی ہے 20ویں صدی کے اس روشن ستارے کا تعلق بھی اس دھرتی سے تھا اور آپ کی بچپن کی محبت حق اور عشق کی کہانی اس دھرتی کے لوک ادب کا نمایاں حصہ ہے۔
اس دھرتی نے وہ دور بھی دیکھا جب 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آ چکا تھا اور کلاسوالہ کے سکھوں کا سر دار ؛ سردار اوپار سنگھ تحریک پاکستان کلاسوالہ کے رہنما سید سردار شاہ صاحب کی بارگاہ میں ننگے پاؤں کھڑا امان طلب کر رہا تھا اور بالآخر وہ قبلہ شاہ صاحب کی بارگاہ سے امان حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اپنے قبیلے کو لے کر ہندوستان کوچ کر گیا۔
اس دھرتی کو آج تک “وحدت امت” کے موضوع پر بابائےصحافت مولانا ظفر علی خان کا گایا گیا گیت یاد ہے یہ دھرتی اس منظر کو کبھی نہیں بولتی جب بابائےصحافت مولانا ظفر علی خان نے اس دھرتی پر پہلی بار قادیانیت کی دین اسلام پر واردات کے راز سے پردہ اٹھایا تھا یہ تحریک پاکستان کا موسم تھا اور جب اس مقام پر اس دھرتی پر موجود چند قادیانیوں نے بد معاشی کا مظاہرہ کرنا چاہا تو تحریک پاکستان کے اس شیر نے علم اور جرآت سے ہر ظلم کو پچھاڑ دیا تھا۔
اس دھرتی پر کہیں شاہ کمال الدین درگاہی (دستگیر آباد) کے طریقت و اخلاق نے ایک زمانے کو متاثر کیا اور بہت سارے غیر مسلم خاندانوں میں اسلام کی دولت عام ہوئی ، تو کہیں بابا جی عبداللہ (بھلر شریف) کے تصوف و طریقت نے امن محبت اور بھائی چارے کو عام کیا ، کہیں پریم کہانی لکھنے والے صوفی یعقوب (ہیبت پور) نے معاشرتی رنگ و تربیت میں اپنا کردار ادا کیا تو کہیں ان کی کرن صوفی رفیق (تلونڈی عنایت) نے اس بستی کے لوگوں پر اپنے کرداری اثرات چھوڑے اور اسی طرح صوفی علماء میں صوفی غلام نبی نے علم اور عشق بانٹنے کا مثالی کردار ادا کیا۔
(جاری ہے)