“کپاس کو غلامی کے ادارے کے بغیر اگانے کی کوششیں بڑی حد تک ناکام رہی ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ انسان لباس پہن سکیں تو مجھے کوئی ایسی صورت نظر ...
“کپاس کو غلامی کے ادارے کے بغیر اگانے کی کوششیں بڑی حد تک ناکام رہی ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ انسان لباس پہن سکیں تو مجھے کوئی ایسی صورت نظر نہیں آتی کہ غلامی کو ختم کیا جا سکے”۔ یہ تجزیہ ماہرِ معیشت جان ڈانسن کا 1857 میں تھا جو امریکی غلامی اور برٹش صنعت کے درمیان تعلق کا جال سلجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ جس سال ڈانسن نے یہ مضمون لکھا تھا، اس سال برطانیہ میں پہنچنے والی کپاس کا دو تہائی امریکہ سے آیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب برطانیہ میں کاٹن کا صنعتی انقلاب آیا تو سوال یہ تھا کہ ان فیکٹریوں کی بھوک مٹانے کے لئے کپاس کہاں سے آئے گی؟ جس رفتار سے صنعت بڑھ رہی تھی، زراعت کی ٹیکنالوجی اتنی تیزی سے نہیں بڑھ سکتی تھی۔ اور اس کے لئے نئی زمینوں کی ضرورت تھی۔ قبضہ کرنے اور جبری مشقت کی۔
اس پودے کے لئے یورپ موزوں نہیں تھا اور یہ نیا مخمصہ تھا۔ برطانیہ میں اس سے پہلے اون اور لنن بنایا جاتا تھا جو سکاٹ لینڈ کی بھیڑیں اور انگلینڈ کی السی سے آتی تھی۔ لوہے کی صنعت شیفیلڈ میں کچ دھات سے۔ برتنوں کی پیداوار سٹیفورڈشائر کی مٹی سے۔ کاٹن انڈسٹری کا سارا دارومدار ہی درآمدات پر تھا۔ افریقہ اور ایشیا سے آنے والی کپاس بھی اس کے لئے کافی نہیں تھی۔ اور اس میٹیریل کو حاصل کرنے کا مطلب پہلی گلوبل integrated صنعت قائم کرنا تھا۔
جب 1780 میں یہ انقلاب آیا تو امریکہ سے برطانیہ آنے والی کپاس کا حصہ صفر تھا۔ اس “سفید سونے” کی بوریاں عثمانیوں کی ازمیر اور تھیسالونیکی کی بندرگاہوں سے آتی تھیں۔ غرب الہند کی پورٹ رائل اور پورٹ او پرنس سے۔ ہندوستان میں ممبئی سے اور افریقہ میں گولڈ کوسٹ سے۔
اور یہ تاریخ میں ایسا ہی رہا تھا۔ صدیوں پرانے تجارتی راستے تھے جن پر روئی کا سفر ہوا کرتا تھا۔ شام میں اگائی گئی کپاس مصر میں کاتی اور بنی جاتی تھی۔ مہاراشٹر کی کپاس بنگال میں۔ اناطولیہ کی لوسرن میں۔ مقدونیہ کی وینس میں۔ چینی شہر ہینان کی ژیانگ نن میں۔
لیکن صنعتی انقلاب نے روایتی پیداواری طریقوں کو ناکافی کر دیا۔ 1700 سے 1781 تک اس کی برطانیہ میں کھپت میں دگنی ہوئی تھی۔ اگلے دس سالوں میں چھ گنا اور اس سے اگلے دس سالوں میں پھر دو گنا۔ فرانس میں ان برسوں میں ہونے والا اضافہ برطانیہ جتنا نہیں تھا لیکن پھر بھی آٹھ گنا کا تھا۔ انگلینڈ میں 56 ملین جبکہ فرانس میں 11 ملین پاونڈ درآمد کی ضرورت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاٹن اشرافیہ کی لگژری پراڈکٹ سے عام لوگوں کے پاس آ چکی تھی۔ لیکن جس طرح اس کی مانگ میں اضافہ ہوا، خام کپاس کی قیمت میں بھی۔ اور نئے سورس کی اشد ضرورت تھی۔
اناطولیہ سے مقدونیہ تک اس نے عثمانی سلطنت میں زراعت کو تبدیل کر دیا۔ کسانوں کی کمی پڑ گئی۔ اچھے دام ملنے کی وجہ سے عثمانی سلطنت کے جاگیرداروں نے کپاس اگانی شروع کر دی۔ ان پر ٹیکس سے حکومتی محصول بڑھا۔ بحیرہ روم سے اس کی تجارت ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ اہم ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن عثمانی اپنے تجارتی نیٹورک اور اپنے دیہات میں انقلاب نہیں لا سکے۔ 1786 سے 1790 کے درمیان برطانیہ کی کاٹن کی درآمدات کا بیس فیصد عثمانیوں سے آتا تھا۔ 1810 میں 1.28 فیصد اور 1820 میں صرف 0.29 فیصد۔
صنعت کو اپنا خام مال لینے کے لئے کہیں اور دیکھنے کی ضرورت تھی۔ برطانوی حکومت اور مانچسٹر کے صنعتکاروں نے ایسٹ انڈیا کمپنی پر دباوٗ ڈالا کہ وہ کاٹن کی برآمدات بڑھانے کے لئے کام کریں۔ کمپنی نے اس کا روکھا جواب دیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا کہنا تھا کہ اگر خام کپاس انگلینڈ بھیجی گئی تو ہندوستان میں کپڑے کی پیداوار گر جائے گی۔ اور کمپنی کا منافع ختم ہو جائے گا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1793 میں لکھا، :اگر ایسا ہوا تو نہ صرف کمپنی کا ریونیو گر جائے گا بلکہ اس کی طاقت اتنی کم ہو جائے گی کہ وہ برقرار نہیں رہ سکے گی۔ اور اگر کسان کو خوراک کی جگہ پر کپاس اگانے کا کہا گیا تو اس کا نتیجہ غذا کی قلت اور قحط کی صورت میں نکلے گا۔ دباوٗ نہ ڈالا جائے کہ ہندوستان سے اضافی کپاس مہیا کی جائے گی”۔
ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان سے اضافی کپاس چین بھیجتی تھی۔ چین سے چائے خریدی جاتی تھی۔ ایسٹ انڈیا کے مزاحمت نے برطانوی صنعت کے لئے ایک سردرد کھڑا کر دیا۔
(جاری ہے)