بنگال ہزاروں سال سے نفیس ململ کا گڑھ رہا تھا۔ اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ صنعتی انقلاب کے بیس سالوں نے اس کو الٹا کر رکھ دیا۔ یہ علاقہ اس انقل...
بنگال ہزاروں سال سے نفیس ململ کا گڑھ رہا تھا۔ اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ صنعتی انقلاب کے بیس سالوں نے اس کو الٹا کر رکھ دیا۔ یہ علاقہ اس انقلاب کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ 355,060 پاونڈ سے بڑھ کر 5,854057 پاونڈ تک برٹش کاٹن کی برآمدات پہلے بیس برسوں میں سولہ گنا ہو چکی تھیں۔
ایک کے بعد اگلا صنعتکار کاٹن کا کارخانہ لگا رہا تھا۔ سپننگ اور ویونگ کا کام کیا جا رہا تھا۔ صدیوں سے اونی برآمدات پر منحصر برطانیہ میں کاٹن کی برآمدات اون سے تین گنا زیادہ ہو چکی تھیں۔
اور اس پھلتی پھولتی صنعت کا اثر ہزاروں میل دور کے ہنرمند محسوس کر رہے تھے۔
بنگال سے برطانیہ تک سن 1800 میں درآمدات چودہ لاکھ پاونڈ تھیں۔ آٹھ سال بعد یہ سوا تین لاکھ پاونڈ تک گر چکی تھیں۔ ڈھاکہ میں سپننگ سب سے بڑی بحران میں تھی۔ مینوفیکچرنگ کا گڑھ یہ شہر یکایک غربت کی طرف گامزن تھا۔ اس کی “عظیم دولت” غائب ہو گئی تھی۔ بے روزگاری تھی اور عظیم قحط سے اموات۔ کھڈیاں خالی تھیں۔ کئی لوگوں نے واپس ہل اٹھا لئے تھے۔ تاجروں کو اب یہاں کے کپڑے کی نہیں، کپاس کی ضرورت تھی۔
افریقہ میں غلام بیچنے والوں نے میڈ ان انڈیا کے بجائے میڈ ان انگلینڈ کپڑا قبول کرنا شروع کر دیا تھا۔
برٹش صنعتی کیپٹلزم کو مضبوط ریاست کی بھی ضرورت تھی۔ تجارتی نیٹورک اور مالیاتی اداروں کا ڈسپلن۔ مضبوط بحریہ جو سرمایے کی منتقلی اور تبادلہ محفوظ کرے۔ دور دراز کاروبار ممکن کرے۔ ملکیتی حقوق پر عملدرآمد کروائے۔ جغرافیائی دوری پر بھی معاہدوں پر عمل کروا سکے۔ ٹیکس کے آلات ہوں۔ قانونی، معاشی اور اقتصادی ماحول ہو جس میں اجرت کے عوض مزدوری لی جا سکے۔
اور یہ اپنے اپنے الگ مفادات رکھنے والوں کا بہت پیچیدہ رقص تھا۔ صنعتکار، جاگیردار، تاجر، بیورکریسی کے درمیان کھینچا تانی تھی۔ کاٹن کے صنعتکار سیاسی طور پر متحرک ہونے لگے۔ اس سے پہلے صرف جاگیرداروں کی حکومت میں نمائندگی تھی۔ برٹش پارلیمان بڑے لینڈ لارڈز کی جگہ تھی۔ 1832 میں ہاوس آف کامنز میں صنعتکاروں کا داخلہ ہو گیا۔ یہاں سے یہ صنعت کے حق میں قوانین بنوا سکتے تھے۔
جاگیروں کے برعکس صنعت کے لئے زیادہ زمین کی ضرورت نہیں تھی۔ ان کی ضروریات سڑکوں اور توانائی کے انفراسٹرکچر کی تھیں۔ پسند کے ٹیکس اور ٹیرف کی تھیں۔
ریاست کا حصہ بن جانے سے تاجروں صنعتکاروں اور حکمرانوں نے ملکر نئی قسم کا معاشی نظام تخلیق کیا۔ بادشاہی نظام کمزور پڑا۔ قوانین، ضوابط اور بیورکریسی کے مکینزم کو طاقت ملی۔ بادشاہ، لارڈ، ماسٹر، فیوڈل یا روایت کی معیشت چلانے کی طاقت کم ہوئی۔ معاہدوں، قوانین، ریگولیشن نے ان کی جگہ لے لی۔
آج کی دنیا میں ہمیں یہ سب عام لگتا ہے۔ یہ بات بھی کہ لوگوں کو جبر کے بغیر کام کروایا جائے اور کام نہ کرنے پر قتل کا خوف نہ ہو۔ اس وجہ سے ہم اس بات کو سراہ نہیں پاتے کہ اپنے وقت میں یہ سب کچھ کس قدر انقلابی تبدیلیاں تھی۔ صنعت سے قبل محنت کا موجودہ تصور موجود نہیں تھا۔
لیکن عالمی سطح پر ابھی یہ بڑی صنعت نہیں تھی۔ 1800 میں کپڑے کی عالمی پیداوار کا ایک فیصد سے بھی کم برطانوی جزائر پر ہوتا تھا۔ لیکن ایک بار صنعتی کیپٹلزم کی سوشل اور اداراتی بنیاد پڑ گئی، جو اشرافیہ، سرمایہ دار، ریاست، مزدور اور کسان کی دہائیوں کی رسہ کشی کی بعد کی ایجاد تھی، تو اب یہ دوسری صنعتوں تک اور دوسرے علاقوں تک پھیل سکتا تھا۔ اور ابھی ترقی کی بہت گنجائش اور مواقع تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مورخ ہوبسبام 1837 میں لکھتے ہیں کہ “صنعتی انقلاب تاریخِ انسانی کا سب سے اہم واقعہ ہے۔ اس نے جس طریقے سے دنیا تبدیل کی، کسی بھی اور واقعے نے نہیں کی۔ دھواں دیتی لمبی چمنیوں کی قطاریں برطانوی معیشت کا انجن تھیں”۔
اس کو دیکھنے والے حیران پریشان ہوتے تھے۔ ان گنت چمنیاں، بے ترتیب شہر، زبردست سماجی تبدیلیاں۔
ڈی ٹوکول 1835 میں مانچسٹر آئے۔ ان کے تاثرات، “انتہائی گندا شہر۔ سٹیم انجن شہر کو بیمار کر چکا ہے۔ بدبو اور شور ہے۔ شہر کا دریا سیاہی کی طرح کالا ہے۔ سیاہ دھواں شہر کو ڈھانپ کر رکھتا ہے۔ سورج کی شعاعیں نظر نہیں آتیں۔ اس نیم روشنی میں تین لاکھ انسان دن رات مسلسل کام کرنے جتے ہوئے ہیں۔ ایک ہزار قسم کی آوازیں اس نم اور تاریک افسردہ شہر میں جو شور ہے، وہ کہیں اور نہیں سنائی دیتا۔
گندا بدبودار نالا بہتا ہے جو اس صنعت کی علامت ہے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں سونا بہتا ہے۔ انسان اپنی تکمیل کر چکا ہے۔ یہ خوشگوار نہیں لیکن مہذب انسان کا معجزہ ہے۔ لیکن یہاں پر آ کر مہذب اور وحشی کا فرق مٹ جاتا ہے”۔
یہ شہر کپاس کی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ دھویں اور شور سے آلودہ شہر میں پسنے اور کالک سے بھرے انسان اس سلطنت کے سلطان تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکی صدر تھامس جیفرسن کا کہنا تھا کہ ہم ایسی صنعتکاری امریکہ میں کبھی نہیں کریں گے۔ یہ ورکشاپس یورپ میں ہی رہیں گی۔
جب گیلوسٹن ہیوسٹن کے صدر کمبال مانچسٹر آئے تو انکا کہنا تھا کہ “جب میں آپ کے شہر میں داخل ہوتا ہوں تو ایک مستقل آواز سنائی دیتی ہے۔ مسلسل ارتعاش سا کانوں میں بجتا ہے۔ جیسے کوئی نا روکی جانے والی پرسرار فورس کام کر رہی ہو۔ ان تکلوں اور کھڈیوں اور مشینوں کا شور اس شہر کو چلاتا ہے۔ اور میں خود سے سوال کرتا ہوں کہ مانچسٹر کی پاور اور امریکہ کی نیچر میں کیا تعلق ہے؟ ٹیکساس کے کپاس کے کھیت اور مانچسٹر کی فیکٹری کو کیا جوڑتا ہے؟"۔
کمبال جس کا بتا نہیں سکے تھے، وہ یہ کہ ٹیکساس کے کپاس کے کھیت اور مانچسٹر کی فیکٹریاں ایک ہی سلطنت کا حصہ تھیں۔ یہ کپاس کی سلطنت تھی۔ ان بھوکی فیکٹریوں کو کھلانے کے لئے اس وقت دو تہائی کپاس امریکہ سے آتی تھی اور اس کا بڑا حصه غلاموں کی مشقت سے پیدا ہوتا تھا۔
(جاری ہے)