Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

انسان ہونے تک (مکمل) از قلم: پروفیسر عبدالمنان ہل

انسان ہونے تک (مکمل) از قلم: پروفیسر عبدالمنان ہل درندہ نما انسانوں کے اس وحشت ناک جنگل میں ایک حقیقی انسان کی طرح...

انسان ہونے تک (مکمل)
از قلم: پروفیسر عبدالمنان ہل
درندہ نما انسانوں کے اس وحشت ناک جنگل میں ایک حقیقی انسان کی طرح اپنے وجود کی بقا کے لیے جدوجہد کرنا کتنا بڑا المیہ ہے یہ وہ انسان ہی جان سکتا ہے جو زندہ انسانوں کے راستے پر چلنا جان سکتا ہو ، مردہ اور بے حس بد روحوں کے درمیان زندگی کی جنگ لڑنا جانتا ہو میں اکثر اپنے ستم رسیدہ لاغر وجود سے سوال کرتا ہوں کہ میں انسان کیوں ہوں اور اور اتنے ظلم اور ستم سہنے کے بعد بھی ایک زندہ انسان کی طرح کیوں سوچتا ہوں جبکہ میرے چاروں طرف دور دور تک وحشی ، جنگلی اور دہشت ناک انسان نما درندوں کا راج قائم ہے جو ہر وقت میرے جیسے انسانوں کی بوٹیاں نوچ نوچ کھانے کے لیے بے تاب ہیں اور اس سے بڑی بات کہ سماج میں موجود ہم جیسو کی اذیت پسندی پر ان زندہ بے حس لاشوں کے قہقہے فضا کو اور زیادہ خوفناک اور ہیبت ناک بنا رہے ہیں۔
موجودہ حالات میں سماجی فضا کے اندر اتنا ڈر اتنا خوف ہے کہ کبھی کبھی مجھے اپنے آپ سے بھی خوف آنے لگتا ہے اور اس حال میں سارا وجود شل ہو جاتا ہے ، میرے ہاتھ پاوں کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں میرے اعصاب پر لرزہ طاری ہو جاتا لیکن اس سارے ماحول میں جب میں اپنے وجود و ضمیر کا محاسبہ کرنے لگتا ہوں تو اچانک یہ نظم مجھکو جگا دیتی ہے یہ نظم آپ کی خدمت میں بھی پیش کئے دیتا ہوں ہو سکتا ہے کہ آپ کو بھی کسی وقت اپنے آپ کا محاسبہ کرتے وقت اس نظم کی ضرورت پڑے اور آپ بھی میری طرح جہد مسلسل کے راستے پر چلنے میں ایک لذت محسوس کریں۔۔۔۔۔
نظم حاضر ہے
کہاں چلی ہو میری امنگوں
میری امنگوں کہاں چلی ہو
آگر خوشی کوئی بھی نہیں تو فرط غم ہی سے مسکراو
مگر مجھے کربناک تنہائیوں میں یوں چھوڑ کر نہ جاو
مجھے خبر ہے ، میں جانتا ہوں
مضمحل چہرہ فضا میں
عجیب موہوم جاں کنی ہے
نہ تیرگی ہے نہ روشنی ہے
مجھے خبر ہے میں جانتا ہوں
کہ زر فشاں دن کی موت کا ڈر
وقت تیزی سے مڑ گیا ہے
دہکتے لمحات بجھ گئے ہیں
شعاعوں کا رنگ اڑ گیا ہے
مجھے بھی ہے دن کی موت کا غم
پر مجھے اس کا غم نہیں
کہ چشم انسان نم نہیں
ابھی یہی دن مرا ہوا دن
سحر کا محبوب تھا، اسی دن کے بازوں پر
سحر کی زلفوں کے سائے پھیلے
کبھی سنہری، کبھی طلائی، کبھی روپیلے
سلسلہ ہے ازل سے یونہی
یونہی رہے گا ابد سے پہلے
کہاں چلی ہو میری امنگوں
میری امنگوں کہاں چلی ہو
مجھے خبر ہے میں جانتا ہوں
تمہیں ابھی دن کی موت کا غم ہی کھا رہا تھا
کہ ساعت مرگ شام نے اپنا جال پھینکا
مجھے بھی ہے مرگ شام کا غم
مگر مجھے اس کا غم نہیں
کہ چشم انسان نم نہیں
مجھے خبر ہے میں جانتا ہوں
شام جو دن کی موت کے غم میں پیدا ہوتے ہی مر گئی
بڑی بھیانک بڑی اداس اور بڑی غمگین ہے
مگر اسی شام سے شفق کھلی ہے جو بڑی حسین ہے
وہاں جہاں آسمان جھک کر زمین کے ہونٹوں کو چومتا ہے
وہاں جہاں بوڑھا وقت پہلو میں زندگی لے کے گومتا ہے
ابھی شفق مسکرا رہی ہے ابھی نہ جاو
یہ شام ، شام الم ہے شام ابد نہیں، مجھ میں لوٹ آو
کہاں چلی ہو میری امنگوں
میری امنگوں کہاں چلی ہو
ابھی تو پہنائی طلب میں
سلگ رہا ہے جنوں کے پندار کا الاو
ابھی بجھا کب ہے
ٹمٹماتی امید کا دیپ مت بجھاو
ابھی نہیں دل پہ اتنا گہرا شکست و یاسیت کا گھاو
غموں کے بحر بے کراں اس سواد جاں میں
ابھی کچھ روز اور ڈولے گی آرزو کی شکستہ ناو
کہاں چلی ہو میری امنگوں
میری امنگوں کہاں چلی ہو
ابھی مجھے چھوڑ کر نہ جاو
ابھی صحرائے رنگ و بو میں
میں دو قدم بھی نہیں چلا ہوں
نہ میں تھکا ہوں ، نہ میں جلا ہوں ، نہ میں بجھا ہوں
ابھی کہاں آبلہ پائی رنگ لائی
ابھی کہاں کم ہوئی مہجور ذہن کی خواہش مسافت
ابھی کہاں میری فکر نے میری بے بسی سے شکست کھائی
ابھی کہاں دل کو موت آئی
ابھی کہاں میرے حسن تخیل کے لبوں سے
بہا ہے وہ خون رنگ نغمہ
جو میری میراج ہے میرے غم کی انتہا ہے
ابھی تو صرف اک خراش آئی ہے
وہ بھی احساس کی زبان پر
ابھی تو آئیں گے سینکڑوں زخم
روح پر ، دل پر ، جسم و جاں پر
ابھی تو آغاز ہی ہوا ہے
ابھی تو در باز ہی ہوا ہے
کہاں چلی ہو میری امنگوں
میری امنگوں کہاں چلی ہو
اپنے “انسان ہونے تک” کا تصور دے کر تو میں اپنے اندر کا غم غلط کر رہا تھا ، اپنے نفس کا تزکیہ کر رہا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اپنے انسان ہونے پر فخر ہونا چاہیے ان زندہ کروڑوں نعشوں کے درمیان صرف ہم چند انسان ہی تو ہیں جو اپنی تخلیق کا مقصد پورا کر رہے ہیں اور اس وقت تک پورا کرتے رہیں گے جب تک پوری دنیا کے انسان نما حیوان ، انسان نما خود غرض بے حس پتھرحقیقی انسان نہیں بن جاتے ۔
ہر انسان کو زندہ رہنے کے لیے زندہ ماحول کی بھی ضرورت ہوتی ہے اگر اس کا ماحول زہر آلودہ بنا دیا جائے تو کوئی بھی اس زہر آلودہ ماحول میں زندہ نہیں رہ سکتا ، انسانوں کو زندہ رہنے اور اپنے وجود کو زندہ رکھنے کے لیے ایک انسانی معاشرہ چاہیے ایک ایسا معاشرہ جو ہر قسم کے جھوٹ ، ریاکاری ، مکاری ، سفاکی ، چالاکی ، خود غرضی ، منافقت ، لوٹ کھسوٹ ، دھن ، دھونس ، دھاندلی ، معاشی ناہمواری ، معاشی ظلم و جبر اور انسانی طبقاتی تقسیم سے پاک ہو ایک ایسا معاشرہ جس میں ہر انسان کا بطور انسان احترام کیا جائے ، جس میں کوئی استحصال نہ ہو ، ایک ایسا معاشرہ جس میں ہر انسان کو اس کی استعداد کے مطابق کام کرنے کا موقع دیا جائے اور اس کو اسکی محنت کا پورا معاوضہ میسر آئے ، زمین کو جاگیرداروں ، وڈیروں ، خانزادوں ، صاحبزادوں ، کرنیلوں اور جرنیلوں اور کارپوریشنوں کے قبضے سے نکال کر عام شہریوں کو اخوت کی بنیادوں پر تقسیم کر دیا جائے اور اسی طرح سرمائے کو سرمایہ داروں کے 22 خاندانوں اور آج کے دور کے لوٹ کھسوٹ کے بعد ان خاندانوں میں شامل ہونے والے تقریبا 500 خاندانوں سے چھین کر ملک کے اندر گردش میں لایا جائے اور اس طرح عام انسان کے حالات میں غربت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا جائے۔
ویسے یہ ابھی ایک خواب ہی ہے جس کی تعبیر پاتے پاتے ہو سکتا ہے کہ ہمیں مزید کئی سال انقلابی جدوجہد کرنا پڑے یہ اس لیے کہ ہمارے معاشرے پر اجتماعی موت وارد ہونے کے بعد بڑی مشکل سے ابھی شعوری بیداری کی ہلکی ہلکی ہوائیں چلی ہیں ، ہم ابھی بھی اگر اپنے معاشرے کا آپریشن کریں تو ہمیں خباثت اور نجاثت کا اس قدر تعفن نظر آئے گا کہ ہمیں اپنے آپ سے نفرت ہونے لگے گی ، اگر ہم غور کریں تو آج کون سی بے حیائی ہے جو آج ہمارے معاشرے میں پائی نہیں جاتی ، کون سا ایسا جھوٹ جو آج یہاں بولا نہیں جاتا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ہمارا معاشرہ ایک گندے غلیظ گٹر کی صورت اختیار کر گیا ہے جس کے اندر غلاظت ٹنوں کے حساب سے جمع ہو چکی ہے اور اوپر سے اس غلاظت پر پسماندگی کی کائی کی موٹی تہہ جم چکی ہے اور مختلف رنگوں، قوموں، نسلوں، فرقوں، گروہوں اور ذاتوں کے مچھر اس کے اردگرد بھنبھنا رہے ہیں اور اس گٹر کے اندر کروڑوں انسان نما حشرات رینگتے نظر آتے ہیں اور غلاظت ان تمام حشرات کے وجود کا حصہ بن چکی ہے۔
اب ذرا سوچئے اس گٹر نما غلیظ معاشرے میں ایک زندہ انسان کردار و عمل کے صاف ستھرے کپڑے پہن کر کیسے زندہ رہ سکتا ہے اور اگلی صورت میں اگر کسی نے زندہ رہنے کی کوشش بھی کی تو اس گٹر کے مجاور اور محافظ اور ان کے پیروکار جن کے دم سے اس گٹر نما معاشرے کا غلیظ نظام قائم و دائم ہے اس صاف ستھرے زندہ کردار والے انسان کو پاگل، دیوانے اور مجنون کی بولیوں کے آغاز کے ساتھ ناکام بنا دیں گے یا بعض صورتوں میں پاگل خانوں میں پھینکوا دیں گے یا اس کا خوبصورت جسم کسی جیل کی دیواروں کی نذر ہو جائے گا یا پھر کوئی گولی اس کی زندگی کا خاتمہ کردے گی اور اگر ایسا خوبصورت انسان اجتماعی طاقت پیدا کر کے اس گٹر کے خاتمے کے مقام کی طرف بڑھ بھی گیا ہو تو کوئی سانحہ ماڈل ٹاؤن بھرپا کر کے اس کے اس مشن کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔
تو دوستو! ایک انسان تن تنہا یا چند انسان بھی کروڑوں مردہ ضمیروں کی پھیلائی ہوئی غلاظت کو صاف نہیں کر سکتے، کیونکہ یہ غلاظت پختہ ہو چکی ہے دماغوں میں جم چکی ہے بلکہ نسوں میں اتر چکی ہے اور پھر ایک غلاظت ہو تو بات بھی ہے یہ تو سینکڑوں اقسام کی دیدہ زیب غلاظتوں کا وہ نظام ہے جس کے تحت صبح سے لے کر شام تک غلاظتوں کو انسانی دماغ میں انڈیلا جاتا ہے اس لیے معاشرے سے ان غلاظتوں کا خاتمہ کرنے کے لیے ایک طویل اور مسلسل ریاضت درکار ہے ، ریاضت اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میری نظر حقیر میں معاشرے کو تبدیل کرنے کا عمل اور فلاحی معاشرے کی طرف سفر اور جہاد جس کی منزل اسلامی فلاحی ریاست ہے صرف اور صرف مسلسل ریاضت یعنی مسلسل انقلابی جدوجہد سے ہی ممکن ہے اور یہ کام صرف وہ سر پھرے لوگ کر سکتے ہیں جو ایمان و عمل ، اخلاق و کردار اور جن کے دماغ اس معاشرے کی گندگی کا حصہ نہ بنے ہوں اور غلاظتیں ان کے دماغ میں داخل دفتر نہ ہوئی ہوں ۔۔۔۔۔
محترم ملت اسلامیہ و انسانیہ الباکستان! یہ آپ کے سوچنے اور سمجھنے کا مقام ہے کہ تم دنیا پہ موجود تمام باطل قوتوں کے مقابلے میں دین اسلام جیسا دنیاوی و اخروی کامل نظام حیات رکھنے کے باوجود ابھی تک ایسا فلاحی معاشرہ اور فلاحی ریاست بنانے میں ناکام ہو اور دیکھو ماضی قریب میں ایران ، روس ، چین اور کوریا جیسے ممالک بھی اسی گٹر نما غلیظ معاشرے کی ماند تھے وہاں پر بھی لوگ ڈور ڈنگروں کی طرح بے مقصد زندگیاں گزار رہے تھے لیکن وہاں بھی چند سر پھری زندہ روحوں نے اپنے وطن کی محبت اور انسانیت کے درد سے سر شار ہو کر اپنے اپنے معاشروں کی کمینگی اور گندگی کو پاک اور صاف کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور ساتھ اپنی ذات کو بھی گندگی سے بچائے رکھا اور گندگی کے اندر بھی خوبصورتی کی بقا کے لیے اپنی منزل کی جانب سر اٹھا کر چلتے رہے اور بالآخر وہ اپنے عظیم مقصد کامیاب و کامران ہو گئے اور آج یہ ممالک پوری دنیا کے لیے مثالی فلاحی معاشرے اور ریاست کے عظیم سفر کی طرف گامزن ہیں۔
آج ان ممالک میں تعلیم عام ہے غربت نہ ہونے کے برابر ہے وہاں کوئی طاقتور کسی کمزور کا استحصال نہیں کر سکتا ، وہاں کسی کمزور عورت کے منہ پر تیزاب نہیں ڈالا جاتا وہاں حقیقی معنوں میں خواتین کا احترام کیا جاتا ہے اور معاشرے میں عزت سے نوازا جاتا ہے، وہاں دور دور تک کوئی چرسی ، افیمی ، ہیروئنی اور جواری نظر نہیں آتا ، وہاں بچوں سے جبری مشقت نہیں لی جاتی ، وہاں غریب لوگوں کو تھانوں میں چھتر نہیں مارے جاتے ، وہاں لوگ مذاق میں ایک دوسرے کو ماں بہن کی ننگی اور فحش گالیاں نہیں دیتے اور وہاں کوئی ڈر اور کوئی خوف نہیں۔
دوستو ہم بھی اپنے ملک کوفلاحی ریاست اور اور اپنے معاشرے کو فلاحی معاشرے میں تبدیل کر سکتے ہیں اور انشاءاللہ تبدیل کر کے ہی دم لیں گے چاہے اس کے لیے ہمیں 100 کروڑ مرتبہ شہادت کی منزل پر فائز ہونا پڑے کیوں کہ یہ ہم زندہ روحوں کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔

جب اپنا قافلہ عزم و یقین سے نکلے گا
رستہ جہاں سے چاہیں گے وہیں سے نکلے گا
وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں تو رگڑنے دے
مجھے یقین ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا